الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
پیش کیا تھا جب سفیان بن عوف اسدی نے مقام انبار پر حملہ کرکے وہاں کے گورنر حسان بکری کو قتل کردیا، یہ علاقہ حضرت علیؓ کے زیر حکومت تھا، اس وقت آپ نے یہ تقریر کی۔ ’’یہ غامدی شخص ہے، جس کے گھوڑے مقام انبار تک پہنچ گئے، اور اس نے حسان بکری کو قتل کردیا اور اس نے تمہارے گھوڑوں کو سرحدوں سے هٹادیا اور تمہارے بہت سے نیک لوگوں کو قتل کر ڈالا۔ اور مجھے یہ خبر ملی ہے کہ ان کا ایک آدمی مسلمان عورت پر پھر ذمیہ عورت پر داخل ہوتا تھا، ان کے پازیب، ان کے گنگن، اور ان کی بالیاں چھینتا تھا، پھر وہ بالکل صحیح سالم واپس ہوگئے ان میں سے کسی کو بھی زخم نہیں پہنچا اور نہ ہی ان میں سے کسی کا خون بہا، پس اگر اس کے بعد کوئی مسلمان شخص مارے افسوس کے مرجائے تو اس پر کوئی ملامت نہیں ہے، بلکہ وہ میرے نزدیک اس کے لائق ہے۔ پس بڑا تعجب ہے باطل پر رہتے ہوئے ان کی کوشش پر، اور حق پر ہوتے ہوئے تمہاری بزدلی پر، تمہارے لئے ہلاکت ہو جب کہ تم ایسا نشانہ بن گئے ہو جس پر تیر اندازی کی جاتی ہے، تم پر حملہ کیا جارہا ہے، اور تم حملہ کرتے نہیں ہو، تم سے جنگ کی جاتی ہے اور تم جنگ کرتے نہیں ہو، اور اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے، اور تم اس پر راضی اور خوش ہو‘‘۔ ملاحظہ کیجئے کہ حضرت علیؓ نے اپنے خطبہ میں کس طرح تدریجاً اپنے سامعین کے جذبات کوبرا نگیختہ کیا ہے، یہاں تک کہ وہ چوٹی تک پہنچ گئے -- اس لئے کہ سب سے پہلے آپؓ نے انبار کی جنگ کی خبر دی، پھر اپنے گورنر کے قتل کی خبر دی، پھر یہ بتلایا کہ سفیان بن عوف نے اتنے پر ہی بس نہیں کیا، بلکہ ان کے بہت سے مردوں اور لوگوں کو تہہ تیغ کیا، -- پھر دوسرے فقرہ میں ان کے حمیت کے مقام اور هر شریف عربی شخص کے دل میں عزیمت ونخوت کے جذبہ کی طرف متوجہ ہوئے، اور نخوت کا وہ جذبہ اور مقام عورت ہے، اس لئے کہ عرب اپنی عورتوں اور پردہ نشین خواتین کے دفاع میں اپنی جانوں کی بازی لگا دینا ارزاں سمجھتے تھے، چنانچہ حضرت علی نے فرمایا کہ ان لوگوں نے ان کی عورتوں کی عزت وآبرو کی بے حرمتی کی اور صحیح سالم واپس ہوگئے۔ پھر تیسرے فقرہ میں حضرت علیؓ نے دشمنوں کے باطل پر مضبوطی سے جمے رہنے اور باطل کی مدد کرنے پر اور اپنی قوم کے حق سے بزدلی دکھانے اور حق کی مدد نہ کرنے پر حیرت وتعجب کا اظہار کیا ہے، پھر آپ کا غصہ انتہاء