الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
آپ پہلی مثال میں دیکھیں، اس میں مخاطب، ظالمین کے ساتھ جو خاص حکم ہے اس سے خالی الذھن ہے تو مقتضائے ظاہر یہ تھا کہ خبر بغیر تاکید کے لائی جاتی، لیکن آیت شریفہ تاکید کے ساتھ وارد ہوئی ہے، تو آیت کریمہ کے مقتضائے ظاہر سے نکلنے کا سبب کیا ہے؟ وہ سبب یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے حضرت نوحؑں کو ان مخالفین کے بارے میں بات کرنے سے منع کیا تو یہ بات ان کے لئے ان پر پہنچنے والے عذاب کے انتظار کا سبب بن گئی (یعنی حضرت نوح کو تردد اور شک ہوگیا کہ اللہ انہیں غرق کرے گا یا کوئی اور عذاب دے گا) اس لئے حضرت نوحؑں کو ایسے سائل کے درجہ میں اتار لیا جس کو یہ تردد ہو کہ کیا ان کو غرق کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یا نہیں؟ پس حضرت نوحؑں کو ’’إِنَّھهُمْ مُغْرَقُوْنَ‘‘ تاکید لاکر جواب دیا گیا۔ بالکل یہی صورت حال دوسری مثال کی ہے، کیونکہ مخاطب ارشاد باری ــــــــــــــ ’’إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ‘‘ میں شامل حکم سے خالی الذھن ہے، مگر چونکہ اس حکم سے پہلے دوسرا جملہ ’’وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي‘‘ گذرا ہے، جو اشارہ کرتا ہے کہ نفس پر کسی ناپسندیدہ چیز کا حکم لگایا گیا ہے، (کیا حکم ہے نہیں معلوم) تو مخاطب اس حکم کی نوعیت کا شدت سے انتظار کرنے لگا ، اسی لئے اس کو بھی طالب متردد کے درجہ میں اتار لیا، اور اس کے سامنے خبر تاکید کے ساتھ لائی گئی۔ تیسری مثال میں آپ دیکھیں، اس میں مخاطبین ارشاد باری ــــــــــــــ ’’ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ لَمَيِّتُونَ‘‘ میں پائے جانے والے حکم کے منکر نہیں ہیں، پھر بھی خبر ان کے سامنے تاکید کے ساتھ لائی گئی، اس کا کیا سبب ہے؟ (حالانکہ جب مخاطب منکر نہیں ہے تو خبر بغیر تاکید کے ہونی چاہئے) ــــــــــــــ وہ سبب ان پر انکار کی علامتوں کا ظاہر ہونا ہے اس لئے کہ ان کا موت سے غافل ہونا اور اچھے عمل کے ذریعہ موت کی تیاری نہ کرنا، یہ دونوں انکار کی علامتوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس لئے ان کو منکرین کے درجہ میں اتار کر ان کے سامنے خبر دو تاکیدوں کے ساتھ پیش کی گئی۔ بالکل یہی حال حجل بن نضلہ شاعر کے شعر کا ہے، اس لئے کہ شقیق اپنے چچا زاد بھائیوں کے پاس نیزوں کا منکر نہیں ہے، لیکن لڑائی اور جنگ کی تیاری کے بغیر اپنے نیزے کو عرض میں رکھے ہوئے آنا یہ اس کی لاپرواہی کی دلیل ہے اور اس کی دلیل ہے کہ وہ سمجھ رہا ہے کہ اس کے چچا زاد بھائی نہتے ہیں ان کے پاس ہتھیار نہیں ہیں، پس اس لئے اس کو منکر کے درجہ میں اتار کر خبر کو تاکید کے ساتھ لائے، اور اس سے منکر کی طرح خطاب کیا گیا اور کہا گیا ’’إِنَّ بَنِيْ عَمِّكَ فِیْھهِمْ رِمَاحُ‘‘