الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
اور جریرابن عطیہ تمیمی شاعر نے عبد الملک بن مروان بادشاہ کی شان میں ایک قصیدہ پڑھا جس کا مطلع یہ ہے أَتَصْحُوْأَمْ فُؤَادُکَ غَیْرُ صَاحٍ ـــــــــــ کیا تم ہوش میں آؤگے یا تمہارا دل ہوش میں آنے والا نہیں ہے، اس مطلع کے آغاز کو عبد الملک نے ناپسند کیا اور شاعر سے کہا بلکہ تیرا دل ایسا ہے ـــــــــــ یہاں بھی مطلع بذاتِ خود اچھا ہے، لیکن مقتضائے حال کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے بلاغت سے خارج ہوگیا۔ ونعی علماء الادب:- ماہرین ادب نے فطری شاعر بحتری پر تنقید کی ہے کہ اس نے اپنے ممدوح کے سامنے قصیدہ پڑھتے ہوئے آغاز اس طرح کیا ہے ـــــــــــ ’’لَكَ الْوَیْلُ مِنْ لَیْلٍ تَقَاصَرَ آٓخِرُهُ‘‘ تیرے لئے ہلاکت ہے ایسی رات سے جس کا آخری حصہ سکڑ گیا ہے ـــــــــــ یہ مطلع بھی صحیح ہے لیکن مقام اور موقع کے مناسب نہ ہونے کی وجہ سے حد ِبلاغت سے نکل گیا۔ ماہرین ادب نے متنبی کے اس شعر پر بھی تنقید کی ہے جو اس نے اپنے ممدوح سیف الدولہ کی ماں کے مرثیہ میں پڑھا ہے ؎ صَلَاۃةُ اللہهِ خَالِقِنَا حَنُوْطٌ عَلَی الْوَجْہهِ الْمُکَفَّنِ باِلْجَمَالِ ترجمہ:- ہمارے خالق اللہ کی رحمت خوشبو ہے ایسے چہرے پر جس کو حسن وخوبصورتی کا کفن پہنایا گیا ہے۔ اس شعر میں متنبی سیف الدولہ کی ماں کی خوبصورتی بیان کررہا ہے جو بالکل نامناسب ہے، اس لئے کہ یہ مرثیہ کا شعر ہے، اس میں حسن وجمال کا بیان غیر مناسب ہے، ابن وکیع نے اس پر نکیر کی ہے کہ بادشاہ کی ماں کا وصف بیان کرنے میں اس کے چہرے کی خوبصورتی بیان کرنا غیر پسندیدہ ہے -- یہاں بھی شعر فی نفسہ اچھا ہے مگر مقتضائے حال کی رعایت نہ ہونے کے سبب حد بلاغت سے خارج ہے۔ وفی الحق ان المتنبی:- حقیقت یہ ہے کہ متنبی بادشاہوں سے خطاب کرنے میں بڑا جری تھا اور اس شذوذ میں (یعنی ایسا بہت شاذ ہوتا ہے کہ کوئی بادشاہ کے سامنے جری ہو) شاید اس کی ذاتی عظمت اور اس کی عبقریت کو بڑا دخل تھا۔ اس وقت ایک بلیغ کے لئے سب سے پہلے ان معانی میں غور وفکر کرنا ضروری ہے جو اس کے دل میں گردش کرتے ہیں، نیز ضروری ہے کہ یہ معانی واقع کے مطابق ہوں، قدر وقیمت والے یعنی اہم ہوں، اور ایسے زور دار ہوں کہ جس میں جدت، سلامت نظری، معانی کو ترتیب دینے کے ذوق، اور معانی کی حسن ترتیب کا اثر نمایاں ہو،