الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
کے ساتھ چلتی ہے وہ جہاں جاتا ہے -- یہ کنایہ بلاغت میں، دل پر اثر کرنے میں، اور معنی کی اچھی منظر کشی میں اس سے بڑھ کرہے جس کو سامع کلام کی بعض دوسری قسموں میں محسوس کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ آپ کو مذکورہ مثالوں سے معلوم ہوگیا کہ کسی انسان کی صفت سخاوت کو چودہ طریقوں سےبیان کیا جاسکتا ہے، جن میں ہر ایک طریقہ کا ایک حسن وجمال اور دلکشی ہے، اگر ہم چاہیں تو اسی مفہوم کو دوسرے بہت سے اسلوبوں سے ادا کرسکتے ہیں، اس لئے کہ شاعروں اور ادیبوں کو اسالیب ومعانی ادا کرنے میں ایسی مہارت اور کمال حاصل ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے، اگر ہم چاہیں تو دوسرے صفات جیسے بہادری، خود داری، دور اندیشی وغیرہ کے بارے میں مختلف اسالیب جو بولے جاتے ہیں لاسکتے ہیں، لیکن کلام کو طول دینے کا قصد نہیں ہے ہمیں یقین ہے کہ عربی اشعار اور ادبی آثار پڑھنے کے وقت آپ اس کو نمایاں طور پر محسوس کریں گے، اور آپ حیرت کریں گے وہ دور کی حد دیکھ کر جہاں تک عقل انسانی پہنچ چکی ہے فصیح وبلیغ منظر کشی میں اور اسالیب کو ڈھالنے میں اور جدت وندرت پیدا کرنے میں۔ یہی مختلف اسالیب جن سے ایک معنی کو ادا کیا جاتا ہے یہ علم بیان کا موضوع ہے، اور میرے خیال سے آپ کو یہ غلط فہمی نہیں ہوگی کہ ان نادر اسالیب کو ڈھالنے کی قدرت علم بیان پر موقوف ہے، اس لئے کہ کسی چیز کو اچھے اسلوب سے تعبیر کرنا بلاغت کے اصول وقواعد پڑھنے پر موقوف نہیں ہے، بلکہ آدمی ایک اچھا انشا پرداز، یا ایک شعلہ بیان مقرر، ادبی کتابوں کو بکثرت پڑھنے سے، عربوں کے ادبی آثار کو یاد کرنے سے، اشعار پر تنقید کرنے اور ان کو سمجھنے سے، فنی نثر کے مطالعے اور اس کے اسرار ورموز کو سمجھنے کا ذوق پیدا کرنے سے بھی ہوجاتا ہے، اور اس سے اس کے اندر کلام کو اچھے اور عمدہ انداز سے پیش کرنے کا راسخ ملکہ پیدا ہوجاتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی سلیم طبیعت اور حساس فطرت کا اس ملکہ کے ساتھ ہونا اس ملکہ کے لئے معین ومددگار ہوجاتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود ہم علم بیان اور اس کے قوانین سے واقفیت کے فائدہ کا انکا رنہیں کرسکتے ہیں، کیونکہ علم بیان اسالیب کے درمیان فرقوں کی تفصیل کے سبب اسالیب کی اقسام کو جاننے کے لئے ایک صحیح میزان ہے، ایک باریک ادبی تحقیق ومطالعہ ہے ہر اسلوب کی تلاش وجستجو کے لئے اور اس میں بلاغت کے راز کو ظاہر کرنے کے لئے۔