الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
وَمَا طَرْزلِیْ لَمَّا رَئَیْتُكَ بِدْعَةً وَلَقْدْ کُنْتُ اَرْجُوْ أَنْ اَرَاكَ فَاَطْرَبُ ترجمہ:- جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرا خوشی میں جھومنا کوئی انوکھی اور تعجب کی بات نہیں ہے، بخدا مجھے تو پہلے ہی یہ توقع تھی کہ جب میں آپ کو دیکھونگا تو خوشی میں جھوم اٹھونگا۔ اس شعر کے بارے میں علامہ واحدی کا بیان ہے کہ متنبی کا یہ شعر استہزاء کے مشابہ ہے، یعنی متنبی گویا کافور کا مذاق کررہا ہے کیونکہ متنبی کہہ رہا ہے کہ تجھے دیکھ کر میں خوشی سے اس طرح جھوم اٹھونگا جیسے انسان کسی مضحکہ خیز چیز سے خوشی میں جھومتا ہے۔ مشہور نحوی امام ابن جنی کہتے ہیں کہ جب میں نے اس شعر کو متنبی کے سامنے پڑھا اور میں نے اس سے کہا کہ تو نے اس شعر میں زیادہ سے زیادہ یہ کیا ہے کہ ایک آدمی کو بندر بنادیا ہے تو متنبی یہ سنکر ہنس پڑا۔ ونری ان المتنبی:-مصنفؒ کہتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ متنبی کا دل حسد اور کینہ سے ابل رہا تھا کافور پر اور اس کے ایام حکومت پر -- جس نے اس کو کافور کی مدح پر مجبور کر رکھا تھا، اور اس کی زبان سے ایسے کلمات نکل جاتے تھے جس کو وہ روک نہیں سکتا تھا، (مطلب یہ ہے کہ متنبی کافور پر خوش نہیں تھا مجبوراً اس کی مدح کرتا تھا اسی لئے اس کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے تھے) بہر حال متنبی کا یہ شعر مقتضائے حال کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے حدِ بلاغت سے نکل کیا۔ اور قدیم زمانے میں شعراء کی زبان سے غلطی سے کوئی مفہوم یا کلمہ نکل گیا جس نے سامعین کو متنفر کردیا یعنی سامعین نے اس کو پسند نہیں کیا تو ان کا کلام بلاغت کی حد سے خارج ہوگیا۔ چنانچہ لوگ نقل کرتے ہیں کہ ابو النجم فضل بن قدامہ شاعر ایک مرتبہ خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے پاس آیا اور اس کے سامنے یہ شعر پڑھا ؎ صَفْرَاءُ قَدْ کَادَتْ وَلَمَّا تَفْعَلِ کَأَنَّھهَا فِی الْأُفِقِ عَیْنُ الْأَحْوَلِ ترجمہ:- زرد سورج قریب ہے کہ غروب ہوجائے اور ابھی ہوا نہیں ہے، گویا کہ وہ آسمان میں بھینگے کی آنکھ ہے۔ ہشام بن عبد الملک خود اَحْول (بھینگا) تھا تو اس نے شاعر کو قید کرنے کا حکم دیدیا، -- یہاں بھی یہ شعر بذاتِ خود درست ہے لیکن مقتضائے حال کی رعایت نہ ہونے کے سبب حد بلاغت سے نکل گیا۔