الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
والے جانور کی شکل ہے جس کے ناخن اس کے مقتولین کے خون میں لت پت ہوں۔ اسی لئے استعارہ تشبیہ بلیغ سے زیادہ بلیغ ہے، اس لئے کہ تشبیہ بلیغ اگرچہ اس کی بنیاد اس دعوی پر ہوتی ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ برابر اور ایک ہیں، لیکن اس میں تشبیہ ہمیشہ ملحوظ اور منوی ہوتی ہے، برخلاف استعارہ کے کیونکہ اس میں تشبیہ نسیا منسیا اور بھلائی ہوئی ہوتی ہے ــــــــــــــ اس سے آپ کے سامنے یہ بات ظاہر ہوجائے گی کہ استعارہ مرشحہ استعارہ مطلقہ سے زیادہ بلیغ ہے، اور استعارہ مطلقہ استعارہ مجردہ سے زیادہ بلیغ ہے۔ رہ گئی استعارہ کی بلاغت جدت طرازی اور خیال کی عمدگی، اور سامعین کے دلوں میں اثر وتاثیر پیدا کرنے کے اعتبار سے تو یہ قدرت پیدا کرنے کا ایک کشادہ میدان ہے، اور کلام کے ماہر شہ سواروں کے ریس لگانے کا میدان ہے۔ ذرا آپ اللہ تعالی کے ارشاد کو دیکھیں آگ کے تذکرہ میں۔ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِير(الملک ۸) قریب ہے کہ مارے غضب کے وہ جہنم پھٹ جائے، جب جب بھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا تو اس سے جہنم کے داروغہ پوچھیں گے، کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا -- تو آپ کے سامنے آگ مُشکّل ہوگی ایک بھاری بھرکم، سخت پکڑنے والی مخلوق کی شکل میں جو چہرے پر تیوریاں چڑھائے ہوئے اور ترش رو ہو، اور جس کاسینہ کینہ اور غصہ سے کھول رہا ہو۔ پھر آپ ابو العتاھیہ کا یہ شعر دیکھیں جو خلیفہ مہدی کو خلافت کی مبارکبادی دینے میں ہے ؎ أَتَتْہهُ الْخِلَافَةُ مُنْقَادَۃةً إلَیْہهِ تُجَرِّرُ أَذْیَالهَھَا ترجمہ:- اس کے پاس خلافت آئی اس کی مطبع وفرمانبرادار بن کر اور اپنے دامنوں کو گھسیٹتے ہوئے۔ تو آپ محسوس کرینگے کہ خلافت ایک نازک بدن، پتلی کمر والی، ناز ونخرے والی، ننگ دل حسینہ ہے، جس پر سارے لوگ فریفتہ ہیں، اور یہ ان کا انکار کررہی ہے، اور اعراض کررہی ہے، لیکن مہدی کے پاس مطبع وفرمانبردار ہوکر، ناز ونخرے کے ساتھ، حیران وسرگشتہ اور شرماتی ہوئی اپنے دامنوں کو زمین پر گھسیٹتی ہوئی آرہی ہے۔ یہ صورت بلاشبہ انوکھی اور شاندار ہے، ابو العتاھیہ نے اس کی انوکھی منظر کشی کی ہے، یہ صورت سامعین کے کانوں میں مٹھاس اور دلوں میں محبوبیت باقی رکھے گی جب تک زمانہ باقی رہے گا۔