الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
پر ادائیگی دشوار ہورہی ہو، جیسے شاعر کا شعر ؎ وَقَبْرُ حَرْبٍ بِمکَانِ قَفْرٍ وَلَیْسَ قُرْبَ قَبْرِ حَرْبٍ قَبْرُ ترجمہ:- اور حرب بن امیہ کی قبر ایک چٹیل میدان میں ہے، اور حرب کی قبر کے پاس کوئی دوسری قبر نہیں ہے۔ اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں چند کلمات ایسے جمع ہوگئے ہیں جن کے مخارج قریب قریب ہیں، اس کے سبب ثقل پیدا ہورہا ہے اور ادائیگی دشوار ہورہی ہے، ــــــ اسی لئے کہتے ہیں کہ اس شعر کو تین مرتبہ لگاتار بغیر اٹکے ہوئے پڑھنا کسی کے لئے آسان نہیں ہے، حالانکہ اس کے کلمات کو الگ الگ کوئی پڑھے تو کوئی ثقل اور دشواری نہیں ہے، پس اس شعر میں تنافرِ کلمات ہے اس لئے یہ غیر فصیح کہلائے گا۔ تیسری شرط:- یہ ہے کہ کلام تعقید ِلفظی سے خالی ہو، -- تعقیدِ لفظی اس کو کہتے ہیں کہ کلام اپنے مرادی معنی پر دلالت کرنے میں مخفی اور پوشیدہ ہو، -- اور ایسا دو وجہ سے ہوتا ہے، (۱) پہلی وجہ یہ ہے کہ کلمات اپنے اصلی مقامات سے آگے پیچھے ہوگئے ہوں، ان میں تقدیم وتاخیر ہوگئی ہو(۲) دوسری وجہ یہ ہے کہ جن کلمات میں باہم قرب واتصال ضروری ہے ان کے درمیان فصل کردیا جائے۔ تعقید لفظی کی پہلی مثال:- جیسے تو کہے ’’مَاقَرَأَ إِلَّا وَاحِدًا مُحَمَّدٌ مَعَ کِتَاباً اَخِیْہِه‘‘ کلام میں تعقید ِلفظی ہے، کلمات میں بے ترتیبی اور تقدیم وتاخیر ہوگئی ہے، اصل کلام یہ ہے ’’ماقرأ محمدٌ مع اخیہه الا کتاباً واحدًا‘‘ (محمد نے اپنے بھائی کے ساتھ صرف ایک کتاب پڑھی ہے) -- اس مثال میں ’’کتاباً واحداً‘‘ موصوف صفت میں تقدیم وتاخیر ہوگئی، اور حرف استثناء إِلَّا اور مستثنی ’’کتاباً واحدًا‘‘ کے درمیان فصل کردیا گیا، اور ایسے ہی ’’مَعَ أَخِیْہِه‘‘ مضاف ومضاف الیہ کے درمیان فصل کردیا گیا حالانکہ حرف استثنا اور مستثنی کے درمیان اور مضاف ومضاف الیہ کے درمیان اتصال ضروری ہے، پس کلام تعقید لفظی کی وجہ سے غیر فصیح کہلائے گا۔ تعقید لفظی کی دوسری مثال:- جیسے متنبی کا یہ شعر ہے ؎ أَنّٰی یَکُوْنُ أَبَا الْبَرِیّةَۃِ آدَمُ وَأَبُوْكَ وَالثَّقْلَانِ أَنْتَ مُحَمَّدٌ متنبی شاعر اپنے ممدوح خلیفہ شجاع بن محمد طائی کی مدح میں کہہ رہا ہے، اس کی اصل اور صحیح ترتیب یہ ہے کَیْفَ یَکُوْنُ آٓدَمُ أَبَا الْبَرِیّةَۃِ وَأَبُوْكَ مُحَمَّدٌ وَأَنْتَ الثَّقَلَانِ