الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
الفاظ کو جامد اور غیر مشتق پائیں گے اور اس قسم کے استعارہ کو استعارہ اصلیہ کہا جاتا ہے۔ اب آپ آخری دو مثالوں میں غور کریں، ان میں سے ہر ایک میں استعارہ تصریحیہ پائیں گے، اور اس کے اجراء میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غصہ کے ختم ہونے کو سکوت کے ساتھ تشبیہ دی گئی، ہر ایک میں سکون کے وجہ جامع کی وجہ سے، پھر مشبہ بہ پردلالت کرنے والے لفظ ’’السکوت‘‘ کو مشبہ (انتہائے غضب) کے لئے مستعار لیا گیا، پھر’’السکوت‘‘ بمعنی انتہائے غضب سے سکت بمعنی انتهھی مشتق کیا گیا۔ اور شیر کی آواز کے دریائے فرات ونیل تک پہنچنے کو تشبیہ دی گئی ہے پانی کے پہنچنے کے ساتھ، اور ہر ایک کا وجہ جامع غایت تک پہنچنا ہے، پھر مشبہ بہ پر دلالت کرنے والے لفظ ’’الورود‘‘كومشبہ (وصول الصوت) کے لیے مستعار لیا گیا، پھر’’ الورود‘‘ بمعنی ’’وصول الصوت‘‘ سے مشتق کیا گیا ’’ورد‘‘ معنی وَصَلَ۔ اب جب آپ ان دو استعاروں کے اجرا اور پہلے استعاروں کے اجراء کے درمیان موازنہ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ یہاں مشبہ بہ کو مشبہ کے لئے مستعار لینے پر اجرا ختم نہیں ہوتا ہے، جیسے پہلے استعاروں میں اتنے پر اجرا پورا ہوجاتا تھا، بلکہ اس کے اجراء میں ایک عمل اور بڑھ جاتا ہے اور وہ مشبہ بہ سے کسی کلمہ کا مشتق ہونا ہے، اور یہ کہ یہاں استعارہ کے الفاظ مشتق ہیں، جامد نہیں ہیں، اور اس قسم کے استعارے کو استعارہ تبعیہ کہا جاتا ہے، اس لئے کہ اس کا مشتق میں جاری ہونا اس کے مصدر میں جاری ہونے کے تابع ہے۔ آئیے ہمارے ساتھ ایک بار پھر دوسری دو مثالوں کو دیکھتے ہیں تاکہ ان سے ہم کو کوئی نئی بات معلوم ہوسکے چنانچہ پہلی مثال ’’ولما سکت عن موسی الغضب‘‘ میں جائز ہے کہ اس میں غضب کو انسان کے ساتھ تشبیہ دی جائے، پھر مشبہ بہ (انسان) کو حذف کرکے اس کے ایک لازم سَکَتَ کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے تو الغضب میں استعارہ مکنیہ ہوگا، ـــــــــــ اور دوسری مثال ’’وَرَدَالفرات زئیره‘‘ میں جائز ہے کہ زئیر (چنگھاڑنا) کو حیوان سے تشبیہ دی جائے، پھر مشبہ بہ (حیوان) کو حذف کرکے اس کے ایک لازم ’’ورد‘‘ کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ کردیا جائے تو’’ زئیره ہ‘‘ میں استعارہ مکنیہ ہوگا، اسی طرح هراستعارہ تبعیہ کا اپنے قرینے میں استعارہ مکنیہ ہونا صحیح ہے، مگر آپ ان دونوں میں سے کسی ایک میں ہی استعارہ جاری کرسکتے ہیں، نہ کہ دونوں میں ایک ساتھ۔