ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کے مرنے کی پروا ہوتی ہے حتی کہ بعض دفع تو جہلا کو ان کے سنگ دل ہونے کا شبہ ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ان سے زیادہ تو کوئی رحم دل ہی نہیں ہوتا مگر اس پریشانی نہ ہونے کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ آخرت کو اپنا گھر سمجھتے ہیں ۔ اس لئے ان کو اولاد کے مرنے کا غم اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ سرائے سے لڑکے کے گھر جلے جانے پر مسافر باپ کو ہوتا ہے کہ ایک گونہ مفارقت سے قلق ہوا بس زیادہ نہیں ۔ کیوں کہ وہ آخرت کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ مرنے کے قریب ہوتے ہیں تو خوشیاں مناتے ہیں جس طرح عادت ہے کہ سفر سے واپس آتے ہوئے گھر کے قریب پہنچ کر خوشیاں منائی جاتی ہیں چنانچہ اس خوشی کو ایک بزرگ کہتے ہیں ۔ خرم (1) آں روز کزیں منزل ویراں بردم راحت جاں طلبم و زپئے جاناں بردم نذر (2) کردم کہ گر آید بسر اس غم روزے تا درمے کدہ شادان و غزلخواں بردم حکایت : حضرت مولانا مظفر حسین صاحب (قدس سرہ ) کاندھلوی سے ایک شخص نے کہا کہ حضرت اب تو آپ بوڑھے ہو گئے آپ نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر فرمایا کہ الحمد اللہ اب قریب وقت آیا مگر ان حکایات سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان کو اعمال پر یا مقبول ہونے پر ناز ہوتا ہے اس لئے احتمال مواخذہ نہ ہونے سے خوش رہتے ہیں ۔ استغفر اللہ ناز کی مجال کس کو ہے بلکہ وہ خوشی صرف اس لئے ہوتی ہے کہ وہ آخرت کو اپنا گھر سمجھتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ ان کو داروگیر کا اندیشہ ہوتا ہے یا نہیں تو سمجھو کہ اندیشہ ضرور ہوتا ہے لیکن رحمت خداوندی سے امید بھی ہوتی ہے کہ ان شاء اللہ تعالی پھر چھوٹ جائیں گے ۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی کا گھر ٹوٹا پھوٹا پڑا ہو اور سرائے نہایت پختہ ہو تو وہ اپنے گھر ہی کو پسند کرے گا اور سوچے گا کہ اگرچہ اس وقت میرا گھر ٹوٹا پھوٹا ہے لیکن میں ان شاء اللہ تعالی پھر اس کو پختہ کر لوں گا ۔ اسی طرح اگرچہ ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ مگر جانتے ہیں کہ ایمان کی سلامتی ہے تو ضرور رحمت ہو گی ۔ غرض وطن سے طبعی محبت ہوتی ہے گو وہاں کچھ تکلیف بھی ہو ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) خوش اس دن ہوں گا کہ اس اجڑے گھر (دنیا) سے جاؤں گا ۔ اپنی جان کا آرام چاہوں گا اور محبوب کے لئے جاؤں گا ۔ (2) میں نے منت مان لی ہے کہ اگر میرے سر میں یہ خیال کسی دن آئے گا تو مے خانہ (جنت) تک خوش خوش غزل پڑھتا جاؤں گا ۔