ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
واذکرسم لے متعلق کیا جائے تو اس صورت میں تبتل سے ارشاد ہوگا ۔ مراقبہ کی طرف یعنی ذکر کے ساتھ مراقبہ ہو اور ایک یہ کہ تبتل کو مستقل حکم کہا جائے ۔مطلب یہ ہوگا کہ علاوہ احکام مذکورہ کے یہ بھی حکم ہے کہ سب سے قطع تعلق کرو بایں معنی کہ سب کا تعلق اللہ تعالٰی کے تعلق علمی اور حبی سے مغلوب ہوجائے اور اثر اس مغلوبیت کا تعارض مقاصد کے وقت معلوم ہوتا ہے مثلا ایک وقت میں دو کام متضاد پیش آئے ایک کام تو اللہ تعالٰی کے تعلق کا ہے اور دوسرا غیر اللہ کے تعلق کا دونوں کا جمع ہونا ممکن نہ ہوتو ایسے وقت پر اللہ کے کام کو اختیار کرنا اور خلاف مرضی حق کو چھوڑ دینا پس یہی معنی ہے قطع تعلق کے نہ یہ کہ کسی سے کوئی واسطہ ہی نہ رکھے ۔ تعلق حجاب ست وبے حاصلی چو پیوند ہا بگلی و اصلی البتہ اختلاف میں افراط کرنا مضر ہے اس کے آگے فرماتے یں کہ رب المشرق والمغرب لاالھ الا ھو فاتخذہ وکیلا ۔ مطلب یہ کہ اللہ پر توکل کرو اس سے معلوم ہوا کہ اہل سلوک کے لئے توکل کی بھی ضرورت ہے اور یہ ان کا معمول ہونا چاہیئے نکتہ اس توکل کی تعلیم میں یہ ہے کہ اعمال مذکورہ بالا کے اختیار کرنے کے بعد حالت میں تغیر وتبدیل قبض وبسط شروع ہوگا اس میں ضرورت توکل کی ہوگی اس لئے فرماتے ہیں کہ آخر وہ مشرق ومغرب کا رب ہے اس لئے اس نے جو حالت تم پر وارد کی ہے اس میں کوئی حکمت ضرور ہو گی ۔ اور ثابت ہے کہ اکثر قبض میں تصیفیہ وتزکیہ خوب ہوتا ہے اس لئے تم کو تنگ دل نہ ہونا چاہیئے اور خدا پر بھروسہ رکھنا چاہیئے اس میں کچھ مصلحت رکھی ہوگی اور مشرق ومغرب کا ذکر قبض وبسط کی حالت کے کس قدر مناسب ہے ۔ مشرق تو حالت بسط کے مناسب ہے کہ اس میں ظہور ہوتا ہے واردات کا اور مغرب مناسب ہے حالت قبض کے پس مشرق ومغرب کا نمونہ باطن انسان میں بھی پایا گیا ولنعم ماقیل آسمانہات در ولایت جاں کار فرمائے آسماں جہاں دررہ روح پست و بالا ہاست کوہ ہائے بلند و بالا ہاست اور جس طرح مغرب میں آفتاب مستور ہوتا ہے معدوم نہیں ہوتا ۔ اسی طرح قبض میں کیفایت سلب نہیں ہوتیں بلکہ مستور ہوجاتی ہیں اور پھر بسط میں گویا طلوع ہوجاتی ہیں ۔