ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
طلب گار باید صبور و حمول کہ نشیندہ ام کیمیا گر ملول ( طلب والے کو تو صبر و تحمل والا ہونا ضروری ہے کیونکہ ہم نے کسی کیمیا کے دھنی کو اکتا جانیوالا نہیں سنا ) افسوس ہے کہ طلب خدا طلب کیمیا کی بھی برابر نہ ہو کہ اس میں تو انسان سالہا سال گنوادے مال ومتاع غارت کردے - چین و آرام کو خیر باد کہہ دے اور طلب خدا میں کچھ بھی نہ ہوسکے طالب کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ؎ بر نداز برائے دلے بارہا خورند از برائے گلے خارہا ( ایک دل کیوجہ سے بہت بوجھ اٹھالیتے ہیں اور ایک پھول کیوجہ سے بہت سے کانٹے کھالیتے ہیں ) اور اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ؎ خوشا دقت شوریدگان غمش اگر ریش بیند و گر مرہمش ( کیا اچھا وقت ہے ان کے غم کے سر مستون کا اگرچہ زخم دیکھیں یا اس کا مرہم دیکھیں ) گدایائے از بادشاہی نفور بامیدش اندر گدائی صبور ( وہ فقیر لوگ کہ بادشاہ سے نفرت کرنے والے صرف ان کی امید پر ہی فقیری میں صبر کرنے والے ) دمادم شراب الم درکشند اگر تلخ بینددم در کشند ( غم کی شراب دمبدم پیتے رہتے ہیں اگر بہت کڑوی دیکھیں گے تو دم کھینچ لیں گے ) اور جو شخص صرف مرہم کا طلاب ہو وہ بیچارے تو بجائے حصول کے امید پر ہی نظر لگائے بیٹھے ہیں - جیسا کہ اوپر کے شعر میں ہے بامیدش اندر گدائی صبور ایک طالب کا قول ہے ؎ اگرچہ دور افتادم بدیں خر سندم کہ شاید دست من بارد گرجانان من گیرد ( اگرچہ میں دور پڑا ہوں مگر اس امید پر خوش ہوں کہ شاید میرا محبوب اور ایک مرتبہ میرا ہاتھ پکڑ لے ) طالب وہی ہے کہ اگر ہزار مرتبہ اس کو کہا جاوے کہ تو دوزخی ہے یا تو مایوس نہ ہو اور دس ہزار مرتبہ کہا جاوے کہ توجنتی ہے تو کاہل اور سست نہ بنے اس کی طلب کی یہ حالت رہے ؎ اے برادر بے نہایت در گہے است ہرچہ بردے میر سی بردے مایست