ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
یہ فتویٰ دیتی ہے کہ تم نے بہت برا کام کیا کبھی اس کو وہ مسرت نصیب نہیں ہوتی جو کہ نیکی کر کے مثلا نماز پڑھ کر یا روزہ رکھ کر ہوتی ہے کہ قلب میں اطمینان اور ایک نور سا معلوم ہوتا ہے - بر خلاف گناہ کے کہ اس کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے سر پر جوتیاں ماردیں مگر افسوس ہے کہ ہم پھر بھی باز نہیں آتے گویا جوتیاں کھانے کی عادت ہوگئی - جیسے چماروں کی عادت ہوجاتی ہے یا جیسے نمرود کی عادت ہوگئی تھی اور یہ تکلیف تو فی الحال ہوتی ہے - پھر اس کا ایک مآال ( انجام ) ہوتا ہے یعنی دنیا ہی میں کہ اس پر طرح طرح کی آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اکثر رزق سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کو بشرط غور معلوم بھی ہو جاتا ہے کہ فلاں گناہ کی سزا ہے خوب کہا ہے ؎ ہر چہ برتو آید از ظلمات و غم آن زبیبا کی وگستاخی ست ہم ( جو کچھ تم پر آتی ہیں تاریکیاں اور غم یہ بھی بیبا کی اور گستاخی سے ہی ہے ) غم چو بینی زود استغفار کن غم بامر خالق آمد کارکن ( جب تم غم دیکھو فورا استغفار کرو غم تو خدا کے ہی حکم سے کام کرتا ہوا آیا ہے استغفار سے گناہ اور گستاخی معاف ہوگی تو یہ سزا غم پریشانی بھی دور ہوجائے گی - ) بن ماجہ کی حدیث میں ہے ان العبد یحرم الرزق بخطیئۃ یعملھا ( بیشک انسان رزق سے محروم کردیا جاتا ہے کسی گناہ کی بدولت جو ہو کرتا ہے ) اور کھانے کو ملے بھی تو اس کی برکت جاتی تہی ہے اس کا سہل طریقہ مشاہدے کا یہ ہے کہ آپ دو مہینے کی رخصت لے کر ان میں سے ایک مہنے تو کسی ایسے شخص کے پاس گزایئے جو کہ نہایت متنعم اور آرام میں زندگی بسر کرتا ہو اور کسی گناہ سے بچتا ہو اور دیکھئے کہ ان گناہوں کی بدولت اس کے قلب کی کیا کیفیت ہے آخر بات چیت سے اس کے انداز کا پتہ لگ ہی جائے گا خاص کر اس وقت میں جبکہ اس پر کوئی مصبیت ائے مثلا بیمار ہو جائے یا کسی دشمن کی مخالف کا اندیشہ ہو اس کے بعد کسی ایسے شخص کے پاس رہیے کہ اس کو اچھی طرح کھانے کو بھی میسر نہ آتا ہو مگر خدا کا مطیع اور فرمانبردار ہو اور اس کے قلب کی