ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
ہم کو خدا تعالیٰ سے کیا تعلق ہے - اس کے بعد کوئی حکم ناگوار نہ گزرے گا کیونکہ عاشق کو کوئی حکم محبوب کا ناگوار نہیں ہوتا بلکہ یوں چاہئے گا کہ کسی طرح ہر وقت ادھر سے کچھ ارشاد ہوتا رہے - حکایت : ایک شخص کا واقعہ ہے کہ وہ ایک طبیب پر عاشق ہوگیا تھا - آخر بیمار پڑا لوگ اس طبیب کو علاج کر لئے لائے تو یوں تمنا کرتا تھا کہ مجھے کبھی شفانہ ہوتا کہ اسی بہانہ سے روزانہ طبیب میرے پاس چلا تو آیا کرے - صاحبو واقعی یہ لوگ بہت غضب کی چیز ہے - کہ عاشق تو عاشق معشوق کہ متوجہ کردیتی ہے ؎ عشق را نازم کہ یوسف رابیاز ار آورد ہمچو صنعار زاہدے رازیر انار آورد ( میں عشق پر ناز کرتا ہوں کہ وہ یوسف علیہ السلام تک کو بازار لے اتا ہے اور ہر شہر صنعا کی طرھ ایک زاہد کو زنار کے نیچے لے آتا ہے کہ زناوالی کے پیھچے لگ کر زنار ( مینو ) باندھ لیا گیا تھا ) دیکھئے اس مریض کا مرض ہی تھا کہ جس نے طبیب کو بھی کھینچ ہی لیا - آج کل کے عقلاء اس کو نہ سمجھیں گے کیونکہ یہ محض ذوتی و وجدانی امر ہے چند ہی روز ہوئے کہ سفر الٰہ آباد پیش آیا - میرے ہمراہ ایک دوست بھی تھے وہ چونکہ شاعر بھی ہیں ایک موقعہ پر اپنے کچھ اشعار پڑھ رہے تھے کہ ان میں یہ شعر بھی پڑھا ؎ کیا بیٹھا ہے سینہ پر زانو کو دہرے قاتل ہاں پھیر بھی دے خنجر کیوں دیر لگائی ہے اس مجمع میں ایک مولوی صاحب تھے جن کی کتابیں عربی کی سب تمام تھیں لیکن شعر سے بالکل مناسبت نہ تھی - انہوں نے جو یہ شعر سنا تو نہایت تعجب سے کہا کہ اس شعر کا کیا مطلب ہے یہ تو بالکل لغو معلوم ہوتا ہے - کیونکہ نہ تو محبوب حقیقی نے کسی کے گلے پر خنجر پھیرا نہ ان شاعر کے مرشد نے کبھی ایسا کیا البتہ طمانچہ شاید کبھی کسی کو مار دیا ہو لیکن سینہ پر زانو رکھ کر تو کبھی نہ بیٹھے - غرض ان کو ہر چند سمجھایا گیا لیکن آخیر تک ان کی سمجھ ہی میں نہ آیا وہ اس کو برابر غلط ہی کہتے رہے - اور لوگ ہنسا کئے تو دیکھئے شعر سے مناسبت 1 نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک صاف شعر کو نہ سمجھ سکے تو اسی طرح جن لوگوں کو یہ نسبت حاصل نہیں ہے ان کی سمجھ نہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 حالانکہ شعر میں مجازات کنایات اور تشبیہات ہیں - خود گھٹنہ اور خنجر کہا مراد ہے -