ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
عجیب عنوان سے فرماتے ہیں کہ خدا (1) در انتظار حمد ما نیست محمد چشم بر راہ ثنا نیست خدا (2) مدح آفرین مصطفی بس محمد حامد حمد خدا بس خدا کی طرف سے حضور کی تعریف اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے خدا کی تعریف کافی ہے آگے فرماتے ہیں ۔ منا (3) جاتے اگر خواہی بیاں کرد بہ بیتے ہم قناعت می تواں کرد منا (4) از تومی خواہم خدارا الہی از تو حب مصطفی را حقیقت میں بے مثل مضمون ہے باقی کوئی یہ نہ کہے کہ حضور تو فرماتے ہیں (5) لا احصی ثناء علیک اور مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ حضور کا ثنا کرنا کافی ہے ۔ بات یہ ہے کہ یہ کفایت ہمارے اعتبار سے ہے ۔ ورنہ خدا تعالی کو کما حقہ کوئی نہیں پہچان سکتا ۔ دور (6) بینان بارگاہ الست جزازیں پے نبردہ اندکہ ہست یعنی اتنا معلوم ہوا کہ موجود ہے باقی یہ کہ کیا ہے اور کیسا ہے اس کے لئے بس یہ سمجھئے کہ اندریں (7) رہ ہرچہ می آید بدست حیرت اندر حیرت اندر حیرت ست شیخ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ۔ چہ (8) شبہا نشستم دریں سیر گم کہ حیرت گرفت آستینم کہ قم محیط (9) است علم ملک بربسیط قیاس تو بردے نگر دو محیط ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) اللہ تعالی ہماری حمد کے انتظار میں نہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہماری تعریف کی راہ پر آنکھ لگائے ہوئے نہیں (2) بس خدا تعالی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف کو وجود بخشنے والے ہی کافی ہیں اور حضور حق تعالی کی ثناء کرنے والے ہی کافی ہیں ۔ (3) اگر تم کوئی مناجات بیان کرنا چاہتے ہو تو صرف ایک شعر پر بھی قناعت کی جا سکتی ہے ۔ (4) اے حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) میں آپ سے تو خدا کو چاہتا ہوں ( ان تک پہنچا دیجئے ) اے اللہ آپ سے حضور کی محبت مانگتا ہوں ۔ (5) میں آپ کی تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔ (6) الست برکم ( کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ) کی بارگاہ کے دور تک کی نظر رکھنے والے اس کے سوا کھوج نہیں لگا سکے کہ بس وہ ہیں ۔ (7) اس راہ میں جو کچھ ہاتھ آ سکتا ہے حیرت در حیرت در حیرت ہی ہے ۔ یعنی حقیقت کے ادراک کر سکنے کی قابلیت ہی انسان میں نہیں ۔ (8) کتنی ہی راتوں میں میں اس بات کی دماغی سیر میں گم بیٹھا رہا یہاں تک کہ حیرت نے میری آستین پکڑی کہ اٹھ ۔ (9) اس سارے لمبے چوڑے جہاں کو اللہ تعالی کا علم گھیرے ہوئے ہے ۔ مگر تمہاری عقل اس کا احاطہ نہیں کر سکتی یعنی جب ایک صفت کا بھی ادراک نہیں کر سکتے تو ذات کا کیسے کر سکتے ہو ۔