ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ملفوظات حکیم الامت جلد ۔ 27 ۔ کاپی ۔ 11 خدا ہی کو پکارتے تھے مگر ہندوستان میں مصیبت کے وقت بھی دوسروں ہی کو پکارتے ہیں ۔ تیسرے قسم وہ ہے کہ گناہ کو یاد کر کے تدارک بھی کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت خدا ہی کی طرف رجوع بھی ہوتے ہیں لیکن وہ حالت ہوتی ہے کہ اہل (1) کاراں بوقت معزولی ! شبلی وقت وبا یزید شوند ! شمر ذی الجوشن و یزید شوند باز (2) چوں می رسند برسرکار یعنی جب تک مصیبت رہی اللہ بھی یاد رہے ۔ رسول بھی یاد رہے اور جب مصیبت ٹلی تو ایسے آزاد کہ گویا خدا تعالی کی حدود حکومت ہی سے نکل گئے ۔ اسی کو فرماتے ہیں کہ واذا مس الانسان الضر دعانا ( جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے وہ ہم کو پکارتا ہے ) اور اس کی وجہ فرماتے ہیں کہ کذلک زین للمسرفین ما کانوا یعملون ( ایسے ہی زینت دے دیئے گئے حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے عمل جو وہ کرتے ہیں ) یعنی وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ لوگ حدود سے باہر ہو گئے ہیں اور یہ خاصیت ہے کہ نیک عمل میں بصیرت (3) ٹھیک رہتی ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو بنیش (4) جاتی رہتی ہے ۔ اسی لئے فرماتے ہیں کہ ان کو اعمال (5) خوش معلوم ہوتے ہیں پس علت اس کی اسراف (6) ہے کہ اس کی وجہ سے بری باتیں مزین (7) معلوم ہونے لگتی ہیں ۔ صاحبو ! آخر کس بات نے تم کو اس قدر بے فکر کر دیا ہے کہ جو تم کو کسی حادثہ سے بھی تنبہ (8) نہیں ہوتا ۔ حق تعالی کو تو ہر جگہ ہر طرح کی قدرت ہے اس سے بچ کر آخر کہاں جاؤ گے پھر معاصی پر کس طرح دلیر ہو مجھے ایک حکایت یاد آئی کہ حکایت : ایک ملاح سے ایک شخص نے پوچھا کہ تمہارے باپ کہاں مرے ۔ اس نے ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) اہل کار یعنی حکومت کے ملازمت پیشہ لوگ ملازمت سے الگ ہونے کے وقت تو شبلی زمانہ اور بایزید ہو جاتے ہیں (2) پھر جب دوبارہ کام پر آ جاتے ہیں پھر شمر و یزید بن جاتے ہیں ۔ (3) دل کی نظر (4) یہ نگاہ (5) برے کام (6) حد سے بڑھنا جو حد کام کی مقرر تھی اس سے نکل کر گناہ کرنا ۔ (7) زینت دی ہوئی اور اچھی (8) توجہ اور ہوشیاری