ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
نے سب کو دیکھا اور فرمایا کہ ان کے سوا کوئی اور لڑکا نہیں ۔ حافظ کے والد حافظ کو کالعدم کہتے تھے ۔ اس لئے جواب دیا کہ اور کوئی نہیں ۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک مجھے معلوم ہوا ہے اور وہ ان میں معلوم نہیں ہوتا ۔ تب انہوں نے کہا کہ ایک اور ہے ۔ مگر نہایت آوارہ دار جنگلوں میں پھرتا ہے ۔ حضرت نجم الدین نے فرمایا کہ ہاں اسی کی ضرورت ہے ۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ کے والد کو بڑا تعجب ہوا کہ اس دیوانے سے حضرت کو کون سا کام ہو گا اور یہ خبر نہ تھی ۔ کہ آب (1) چشمہ حیواں درون تاریکجا ست چنانچہ تلاش کے بعد حافظ ملے ۔ وحشی خاک آلودہ اور ان کو حضرت نجم الدین کبری کے سامنے پیش کیا گیا ۔ حافظ نے جب حضرت کی صورت دیکھی تو بے اختیار زبان سے نکلا ۔ آنانکہ (2) خاک را بنظر کیمیا کنند آیا بود کہ گوشہ چشمے بہا کنند دروم (3) نہفتہ بہ زطبیباں مدعی ! باشد کہ از خزانہ غیبش دوا کنند آپ نے سینے سے لگا کر فرمایا کہ (4) بہ تو نظر کردم ۔ حضرت نجم الدین کبری بہت بڑے شخص ہیں ان کا انتقال اس طرح ہوا کہ ایک مرتبہ انہوں نے کسی کو کوئی شعر پڑھتے سنا کہ اس کا ایک مصرعہ یہ تھا ۔ جاں (5) بدہ و جاں بدہ و جاں بدہ آپ نے فرمایا کہ افسوس محبوب جان طلب کر رہا ہے اور کوئی نہیں سنتا اور فرمایا کہ جاں (6) دادم و جاں دادم و جاں دادم اور اس میں انتقال ہو گیا ۔ غرض حافظ کو سینے سے لگا کر انہوں نے فیض دیا ۔ لیکن وہ فیض کافی نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد یا اس سے قبل مجاہدے کی بھی ضرورت ہوئی ۔ یہ دوسری بات ہے کہ قابلیت تامہ کی وجہ سے زیادہ مجاہدے کی ضرورت نہ ہوئی ہو ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) ہمیشہ کی زندگی کے چشمہ کا پانی تاریکی میں ہے ۔ (2) وہ لوگ کہ مٹی کو ایک نظر میں کیمیا (سونا) بنا دیتے ہیں ۔ کیا ہو سکتا ہے کہ نظر مبارک کا ایک کنارہ ہماری طرف بھی کر دیں ۔ (3) میرا درد دعویدار طبیبوں سے تو چھپا رہنا ہی بہتر ہے ہو سکتا ہے کہ حق تعالی ہی غیب کے خزانہ سے اس کی دوا کر دیں ۔ (4) میں نے تم پر نظر کر دی ۔ (5) جان دے دو جان دے دو جان دے دو ۔ (6) میں نے جان دے دی ، میں نے جان دے دی، میں نے جان دے دی ۔