ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
وھکذا (1) الی غیر النھایۃ " آخر یہ عمر دنیا یوں ہی تمام ہو جاتی ہے " ۔ پس امروز و فردا (2) پر ٹالنے سے کیا فائدہ ۔ ہمت کر کے کام شروع کر دینا چاہیے ۔ خدا تعالی خود مدد کریں گے ۔ کامل نہ ہو گے تو خالی بھی نہ رہو گے ۔ اگر تم کو صدیقیت (3) کا درجہ نہ بھی نصیب ہوا تو کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی ہو رہو گے ۔ کم از کم خدا تعالی کے ساتھ محبت اور لگاؤ دنیا سے بے تعلقی اور طبیعت کا اچٹاؤ تو ضرور ہی ہو جائے گا ۔ مگر افسوس ہے ہماری حالت یہ ہے ہر شبے (4) گویم کہ فردا ترک ایں سودا کنم بازچوں فردا شود امروز زافردا کنم کہ روز یہی وعدہ رہا کہ کل ضرور کر لیں گے مگر ساری عمر اسی کل کل (5) میں گزر گئی اور (6) کل نصیب نہ ہوئی حتی کہ موت کا وقت سر پر آ جاتا ہے اور اس وقت بجز حسرت کے اور کچھ نہیں بن پڑتا اور یہ تمنا کرتا ہے کہ رب (7) لو لا اخرتنی الی اجل قریب فاصدق و اکن من الصالحین مگر یہ تمنا رد کر دی جاتی ہے اور ارشاد ہوتا ہے ۔ ولن (8) یوخر اللہ نفسا اذا جآء اجلھا کہ اب ایک ساعت کی بھی مہلت نہیں مل سکتی اور صاحبو ! ہم تو کیا چیز ہیں کہ ہم کو کچھ مہلت مل سکے ۔ حکایت : حضرت سلیمان علیہ السلام جو کہ نبی معصوم و مقبول ہیں ۔ انہوں نے جب بیت المقدس کی تعمیر شروع فرمائی اور اختتام تعمیر سے قبل آپ کی وفات کا وقت آ گیا تو آپ نے یہ تمنا کی کہ بیت المقدس کی تعمیر تیار ہو جانے تک مہلت دی جائے لیکن قبول نہ ہوئی ۔ غور کیجئے نبی کی درخواست اور بیت المقدس کی تعمیر کے لئے مگر نا منظور ۔ آخر آپ نے یہ درخواست کی کہ مجھے اس طرح موت دے جائے کہ جنات کو میری موت کی اطلاع اس وقت تک نہ ہو جب تک یہ تعمیر پوری نہ ہو جائے ۔ چنانچہ یہ درخواست منظور ہوئی اور آپ حسب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) اور اسی طرح حد سے آگے تک (2) آج کل (3) صدیق ہونے کا (4) ہر رات کہہ لیتا ہوں کہ کل کو اس محبت کے خیال کو چھوڑ دوں گا ۔ مگر جب کل ہوتی ہے آج کو کل بنا لیتا ہوں ۔ (5) جھگڑے (6) راحت (7) اے میرے پروردگار کیوں نہ مجھے قریبی مدت تک مہلت دے دی کہ میں صدقہ خیرات کر لیتا اور نیکوں میں سے ہو جاتا ۔ (8) ہر گز اللہ تعالی کسی کو مہلت نہیں دیتے جب اس کا وقت آ جاتا ہے