الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
کے متعدد ہونے سے مانع نہیں ہے، اور وہ تشبیہ جس میں وجہ شبہ اس طرح ہو اس کا نام تشبیہ غیر تمثیل ہے، ـــــــــــــ اب اس کے بعد والی تشبیہات کو دیکھیں۔ ابو فراس شاعر چھوٹی نہر کے اس پانی کی حالت کو جو دو باغوں کے درمیان اس کے دونوں کناروں پر جاری ہے، جن دونوں کناروں کو پھولوں نے اپنی عجیب رنگت سے تروتازہ ہریالی بکھیرتے ہوئے مزین کر رکھا ہے (اس کو تشبیہ دے رہا ہے) اس چمکدار تلوار کی حالت سے جس کی دھار کی چمک برابر باقی ہے، جس کو لوہار نے بے نیام کردیا ہے ایک منقش چادر پر ـــــــــــــ پس وجہ شبہ کہاں ہے؟ کیا آپ کا خیال ہے کہ شاعر دو تشبیہ بنانا چاہ رہا ہے، پہلی چھوٹی نہر کو تلوار کے ساتھ تشبیہ، اور دوسری باغ کو منقش چادر کے ساتھ تشبیہ؟ نہیں اس کا یہ ارادہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک دیکھی ہوئی صورت کو ایک خیالی صورت کے ساتھ تشبیہ دینا چاہ رہا ہے، وہ باغوں کے درمیان بہنے والی چھوٹی نہر کی حالت کو منقش چادر کے اوپر رکھی تلوار کی حالت سے تشبیہ دے رہا ہے، ـــــــــــــ پس وجہ شبہ یہاں ایک صورت ہے نہ کہ مفرد ہے، اور یہ صورت متعدد چیزوں سے منتزع اور اخذ کی ہوئی ہے، اور طرفین یعنی مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان مشترک صورت وہ ایک لمبی سفیدی کا پایا جانا جس کے ارد گرد سرسبزی اور ہریالی ہو جس میں مختلف رنگ ہو۔ اور متنبی شاعر لشکر کے دونوں جانب یعنی میمنہ اور میسرہ کو ـــــــــــــ جن کے درمیان سیف الدولہ ہے، اور وہ حرکت واضطراب جو ان دونوں میں ہے، اس کو تشبیہ دے رہا ہے اس عقاب پرندے کی صورت سے جو اپنے بازؤوں کو جھاڑ رہا ہو اور حرکت دے رہا ہو، اور وجہ شبہ یہاں بھی مفرد نہیں ہے بلکہ وہ متعدد چیزوں سے ماخوذ ہے، اور وہ کسی چیز کے دو کناروں کا حرکت وتموج کی حالت میں پایا جانا ہے۔ اور آخری شعر میں سری رفاء شاعر نیلے آسمان میں موجود مہینہ کے ابتدائی تین راتوں کے سفید ، چمکدار اور کمان نما چاند کی حالت کو تشبیہ دے رہا ہے ایک نیلے طشت میں ڈوب رہی چاندی کی مچھلی کی حالت سے، پس یہاں بھی وجہ شبہ متعدد چیزوں سے اخذ کی ہوئی صورت ہے، اور وہ ایک نیلی چیز میں سفید کمان نما چیز کا پایا جانا ہے، پس یہ تینوں تشبیہات جو ابھی آپ کے سامنے گذریں اور جن میں آپ نے دیکھا کہ وجہ شبہ ایک ایسی صورت ہے جو چند چیزوں سے بنی ہوئی ہے، ان میں ہر تشبیہ کا نام تشبیہ تمثیل ہے۔