الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
آئے، جب ہم نے ان کے پاس دورسول بھیجے تو انہوں نے ان کو جھٹلایا، پس ہم نے تیسرے کے ذریعہ ان کو تقویت دی، تو ان تینوں نے کہا، ہم تمہاری طرف رسول بناکر بھیجے گئے ہیں، وہ کہنے لگے کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو، اور رحمن نے کوئی چیز نہیں نازل کی ہے، تم تو بڑے جھوٹے ہو، انہوں نے کہا کہ ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہارے پاس رسول بناکر بھیجے گئے ہیں، ـــــــــــ ان رسولوںنے جب پہلی مرتبہ انکار محسوس کیا تو انہوں نے صرف ’’اِنَّ‘‘ سے تاکید لانے پر اکتفا کیا اور کہا ’’إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُون ‘‘ پھر جب ان کا انکار بڑھتا گیا تو انہوں نے ’’قسم، اِنَّ اور لام‘‘ سے تاکید لاکر کہا ’’رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُون ‘‘ کبھی یہ باریکیاں غیر عربی زبان والوں پر مخفی رہتی ہیں، منقول ہے کہ عربی فلسفی ابن اسحق کندی سوار ہوکر ابو العباس مبرد نحوی کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ میں کلام عرب میں حشو وزیادتی پاتا ہوں، تو ابوالعباس نے کہا تم نے یہ حشو کہاں پایا؟ تو اس نے بتلایا کہ میں نے عربوں کو پایا وہ کہتے ہیں ’’عَبْدُ اللّٰہهِ قَائِمٌ‘‘ پھر کہتے ہیں ’’إِنَّ عَبْدَ اللّٰہهِ قَائِمٌ‘‘ پھر کہتے ہیں’’إِنَّ عَبْدَ اللّٰہهِ لَقَائِمٌ‘‘ تینوں کے معنی ایک ہیں اور الفاظ مکرر ہیں، تو ابو العباس نے کہا ایسا نہیں ہے بلکہ معانی مختلف ہیں، پہلے جملے میں عبد اللہ کے کھڑا ہونے کی خبر دینا ہے، دوسرا جملہ سوال کا جواب ہے، اور تیسرا جملہ انکار کرنے والے کی تردید ہے۔ اسی طرح علم معانی یہ بات بھی ضروری قرار دیتا ہے کہ ہر انسان سے فہم وسمجھ میں اسکی استعداد کے بقدر اور زبان وادب میں اسکی مہارت کے بقدر خطاب کیا جائے، لہذا یہ درست نہیں کہ کسی عام آدمی سے خطاب میں ایسا اسلوب اختیار کیا جائے جس اسلوب سے عربی زبان اور اسکے اسرار سے واقف ادیب سے خطاب کیا جاتا ہے۔ کسی نے بشار بن برد سے کہا تم ایسی بیکار چیز ذکر کرتے ہو جس میں تفاوت (تضاد) ہوتا ہے، اس نے پوچھا وہ کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تم گردو غبار اڑاتے ہو اور اپنے قول سے لوگوں کے دلوں كو مطیع بنادیتے ہو، ؎ إِذَا مَا غَضِبْنَا غَضْبَةً مُضَرِیَّةً هَھتَکْنَا حِجَابَ الشَّمْسِ أَوْتُمْطِرالدَّمَا إِذَا مَا أَعَرْنَا سَیِّدًا مِنْ قَبِیْلَةٍ ذُرَا مِنْبَرٍ صَلّٰی عَلَیْنَا وَسَلَّمَا ترجمہ:- جب ہم قبیلہ مضر کی طرح غضبناک ہوتے ہیں، تو سورج کے پردے کو بھی پھاڑدیتے ہیں، حتی کہ اس سے خون کی بارش ہونے لگتی ہے، ـــــــــــ اور جب ہم قبیلہ کے سردار کو منبر کی بلندی عاریت پر دیتے ہیں تو وہ ہم پر دعا اور سلام بھیجتا ہے۔