الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
’’أَلَا إِنَّ بَغْیَ الْمَرْءِ یَصْرَعُہهُ‘‘ میں تذییل کے ذریعہ اطناب ہے جو ضرب المثل کے قائم مقام ہے، پہلے والے جملہ معترضہ کا فائدہ اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں روزی تقسیم فرمادی ہے، اور اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ لوگوں کے لئے مناسب نہیں ہے شاعر کی رائے میں کہ وہ روزیوں کی تلاش میں (بیجا) کوشش کریں، اور دوسرے والے تذییل کے جملے کا فائدہ پہلے والے کلام کے مفہوم کو مؤکد کرنا اور اسکو سامعین کے ذہنوں میں بٹھانا ہے۔ (۴) آیتِ کریمہ میں تکرار کے ذریعہ اطناب ہے، مقصد انذار کی تاکید کرنا ہے۔ (۵) یہاں بھی تکرار کے ذریعہ اطناب ہے، اور اسکا فائدہ مخاطب کو خطاب قبول کرنے پر اور رہنمائی کو دھیان سے سننے پر مائل کرنا ہے۔ (۶) آیتِ کریمہ میں احتراس کے ذریعہ اطناب ہے، اسلئے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ’’تَخْرُجْ بَیْضَاءَ‘‘ یہ وہم پیدا کررہا تھا کہ یہ سفیدی کسی بیماری کی وجہ سے ہے یا کسی برائی کی وجہ سے ہے جو ہاتھ کو پہنچی ہے، تو ’’مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ‘‘ لاکر وہم دفع کردیا۔ (۷) پہلے شعر میں تکرار ہے، اسلئے کہ کلمات کے معانی قریب قریب ہیں، اور تمام کلمات عذاب وبدبختی کے اقسام پر دلالت کرتے ہیں، شاعر کا مقصد اس تکرار سے اپنی مصیبتوں کا اظہار ہے، اور اسکے قول’’اِنَّ ذَالَعَظِیْمٌ‘‘ میں تذییل ہے، جو ضرب المثل کے قائم مقام نہیں ہے، اور شاعر دوسرے شعر میں اِنَّ اور اسکے اسم کو مکرر لایا ہے طولِ فصل (فاصلہ لمبا ہوجانے) کی وجہ سے۔ (۸) اطناب کا طریقہ یہاں’’ ایضاح بعد الابہام‘‘ ہے، پس اللہ تعالی کا قول ’’فَوَسْوَسُ إِلَیْہهِ الشَّیْطَانُ‘‘ مجمل کلام ہے جسکی تفصیل بعد والے کلام سے ہورہی ہے، اور اسکا فائدہ یہ ہے کہ مخاطب معنی کا دومختلف صورتوں میں ادراک کرتا ہے، ایک مبہم اور ایک وضاحت کے ساتھ، اور اسکا دلوں میں عظیم وقوع ہوتا ہے، (یعنی بات اچھی طرح ذہن میں بیٹھ جاتی ہے)۔ (۹) شعر کے دونوں مصرعوں میں اعتراض (جملہ معترضہ) کے ذریعہ اطناب ہے، یہاں جملہ معترضہ سے شاعر کا مقصد اس بات پر حسرت ظاہر کرنا ہے کہ موت بیٹے پر پہلے آگئی۔ (۱۰) ’’سُبْحٰنَہهُ‘‘آیت کریمہ میں درمیان کلام میں جملہ معترضہ ہے، اللہ تعالی شانہ کی پاکی بتلانے کے لئے۔