الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
ندائے قریب میں اصل یہ ہے کہ ’ہمزہ‘‘ یا ’’ای‘‘ سے پکارا جائے، اور ندائے بعید میں ان دو حرفوں کے علاوہ باقی حروف ندا سے پکارا جائے، -- مگریہاں بلاغت کے چند اسباب ایسے ہیں جو تقاضا کرتے ہیں اس اصل کی مخالفت کا، ہم آگے آپ کے سامنے ان اسباب کی وضاحت کررہے ہیں۔ آپ پہلی مثال میں غور کریں، اس میں منادی بعید ہے، لیکن ابوطیب متنبی ’’ ہمزہ‘‘ سے ندا کررہا ہے جو قریب کے لئے وضع کیا گیا ہے، تو یہاں بلاغت کا سبب کیا ہے؟ تو سبب یہ ہے کہ ابوطیب یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ بعد مکانی کے باوجود اسکے دل میں قریب ہے اور ذھن میں مستحضر ہے، اسکے دل سے کبھی غائب نہیں ہوتا ہے تو گویا ایک ہی جگہ میں اسکے ساتھ موجود ہے، اور یہ وہ بلاغتی نکتہ ہے جس سے’’ ہمزہ‘‘ اور’’ ای‘ ‘ کا استعمال جائز ہوجاتا ہے۔ اسکے بعد باقی تین مثالوں میں دیکھیں، سب میں منادی قریب ہے، لیکن متکلم نے ان میں وہ حروفِ ندا استعمال کئے ہیں جو بعید کے لئے وضع کئے گئے ہیں، تو اسکا سبب کیا ہے؟ تو دوسری مثال میں سبب یہ ہے کہ منادی بڑے درجہ والا اور بڑی شان والا ہے تو عظمت ومرتبہ میں دوری گویا مسافت میں دوری ہے، اسی لئے متکلم نے اسکی ندا میں وہ حرف اختیار کیا جو ندائے بعید کے لئے موضوع ہے، تاکہ اسکی بلند شان کی طرف اشارہ کرے۔ تیسری مثال میں سبب یہ ہے کہ مخاطب متکلم کے اعتقاد میں گھٹیا شان اور چھوٹے درجہ کا ہے، تو گراوٹ میں اسکی دوری گویا مسافت کی دوری ہے۔ اور آخری مثال میں مخاطب غفلت وذھول کی وجہ سے سامنے رہتے ہوئے بھی گویا وہ متکلم کے ساتھ ایک جگہ میں حاضر نہیں ہے۔ اور کبھی حروف ندا اپنے اصلی معنی سے ہٹ کر ــــــــــ جوکہ متوجہ ہونے کو طلب کرنا ہے ــــــــــ دوسرے معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں جو معانی قرائن سے سمجھے جاتے ہیں، ان معانی میں سے چند یہ ہیں۔ (۱) پہلا معنی زجر (ڈانٹنا) هے جیسے شاعر کا قول ؎ یَاقَلْبُ وَیْحَكَ مَاسَمِعْتَ لِنَاصِحٍ لَمَّا ارْتَمَیْتَ وَلَا اتَّقَیْتَ مَلَامًا ترجمہ:- اے دل! تیرا برا ہوتو نے کسی خیر خواہ کی بات نہیں سنی، جب تو نے تیر پھینکا اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈرا۔