الرحمۃ الواسعۃ فی حل البلاغۃ الواضحۃ |
لرحمة ا |
|
(۸) مَالَكَ تُعْنٰی بِالْأَسِنَّةِ الخ تعجب شاعر تعجب کررہا ہے کہ ممدوح ہتھیار جمع کررہا ہے حالانکہ اس کو کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اس کا مقدرہی دشمنوں کو زخمی کردیتا ہے اور بغیر نیزوں کے مار دیتا ہے۔ (۹) هَھلْ بِالطُّلُوْلِ لِسَائِلٍ رَدٌّ الخ تمنی شاعر تمنا کررہا ہے کہ کاش ٹیلے سوال کا جواب دیتے اور بات کرتے۔ (۱۰) حَتّٰی مَتٰی أَنْتَ فِی لَهْھوٍ وَفِيْ لَعِبٍ؟ استبطاء اس لئے کہ شاعر مخاطب سے کہنا چاہتا ہے کہ تیرے اوپر لمبازمانہ گذرا اور تو آخرت سے غافل ہے۔ (۱۱) أَیُحِیْطُ مَایَفْنٰی بِمَالَا یَنْفَدُ نفی مطلب نہیں احاطہ کرسکتی ہے۔ (۱۲) مَنْ ذَا الَّذِيْ یَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّابِإِذْنِہهِ تحدی وتعجیز مطلب چیلنج کرنا ہے کہ کونسا انسان اس مقام تک پہنچ سکتا ہے بغیر اللہ کی اجازت کے۔ (۱۳) أَیَدْرِيْ الرَّبْعُ أَیَّ دَمٍ أَرَاقَا تمنی شاعر تمنا کررہا ہے کہ کاش حویلی یہ جانتی جو اس نے خون ریزی کی ہے اور جو اس نے دلوں میں شوق وامنگ پیدا کی ہے۔ (۱۴) وَکَیْفَ تُعِلُّكَ الدُّنْیَا بِشَیْیٍٔ تعجب متنبی تعجب کررہا ہے کہ سیف الدولہ تو دنیا کا طبیب ہے اور اس کی بیماریوں اور فساد وبگاڑ میں شفا بخش ہے پھر اس کے بیمار ہونے کا کیسے قصد کیا جاتا ہے۔ ؍ ؍ وَکَیْفَ تَنُوْبُكَ الشَّکْوٰی بِدَاءٍ تعجب متنبی تعجب کررہا ہے کہ سیف الدولہ کو کوئی مصیبت کیسے پہنچ سکتی ہے جبکہ حوادث کے وقت اس سے فریاد رسی کی جاتی ہے اور وہ شکایتوں اور مصیبتوں کو دفع کرتا ہے۔ (۱۵) أَتَظُنُّ أَنَّكَ لِلْمَعَالِيْ کَاسِبُ تحقیر کیونکہ شاعر مخاطب کی شان کو گرارہا ہے اور نیچا دکھا رہا ہے جیسا کہ سیاق کلام سے سمجھا جارہا ہے۔