مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
پردہ از درد نہاں بیروں کنم درد دل در عاشقاں افزوں کنم میں نے اپنے درد نہاں سے پردہ اُٹھادیا ہے تاکہ اللہ کے عاشقوں کے دل میں درد ِمحبت اور تیز ہوجائے۔ اور حکایات کے یکجا ہونے سے مثنوی سے استفادہ بھی آسان ہوگیا۔ اس کے علاوہ اپنے اکابر کے مسلک کو حضرت نے شرح کے دوران مثنوی کے اشعار سے جابجا مؤید فرمایا جس سے اپنے اکابر کے مسلک کی حقانیت اور اس کا عینِ شریعت وسنت ہونا اور زیادہ واضح ہوگیا۔اس کے علاوہ مثنوی کی بحر میں حضرتِ والا کے کئی سو اشعار فارسی میں ہیں جن کو دیکھ کر حضرت مولانا یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ لَا فَرْقَ بَیْنَکَ وَبَیْنَ مَوْلَانَا رُوْم یعنی آپ کے اور مولانا روم کے کلام میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتا۔ اور ایران کے علمائے حق بھی ان کو پڑھ کر جھوم گئے اور ایک مشہور عالم نے حضرتِ والا کو خط لکھا کہ جو بھی آپ کی مثنوی پڑھتا ہے اس کو مثنوی مولاناروم سمجھتا ہے اور بےشک آپ اس دور کے رومیٔ ثانی ہیں۔ معارفِ مثنوی مولانا روم کے متعلق حضرتِ والا کے لیے دو بشاراتِ منامیہ یہاں تحریر کرتا ہوں۔ آج سے تقریباً پچیس چھبیس سال پہلے جب معارفِ مثنوی پہلی بار شایع ہوئی تو ماہرِ قلب ڈاکٹر حافظ محمد ایوب صاحب نے جو اس وقت تعلیم حاصل کررہے تھے خواب میں دیکھا کہ معارفِ مثنوی مسجدِ نبوی میں منبر اور محراب کے درمیان کسی بلند چیز پر رکھی ہوئی ہے۔اور اسی زمانے میں حضرتِ والا کے ایک عالم مرید نے خواب دیکھا کہ معارفِ مثنوی کے سرورق پر مؤلف کی جگہ حضرتِ والا کے نام کے بجائے شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا نام لکھا ہوا ہے۔ حضرتِ والا کو بچپن ہی سے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے شہر قونیہ کو دیکھنے کی آرزو تھی لہٰذا حضرت نے ارادہ فرمالیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ راستے میں اس شہر کی زیارت کرتے ہوئے لندن اور پھر باربڈوز جائیں گے۔