مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
حضرت نے آنکھ بند کرکے بہت سوچا کہ میرا کیا نام ہے ۔ جب یاد نہیں آیا تو ان ہی سے پوچھا کہ میرا کیا نام ہے ؟ پوربی زبان کا یہ شعر حضرت کی اس حالت کا ترجمان تھا ؎ یس من مور لبد گئے توں ہیں سمرن نام بسر گئے موں ہیں اے خدا! میرا دل آپ سے ایسا چپک گیا کہ اے میرے محبوب! مجھے اپنا نام بھی یاد نہیں آرہا ہے ۔ اپنا ہی نام پوچھنے پر ماسٹر عین الحق صاحب کو ہنسی آگئی، حضرت نے ڈانٹ کر فرمایا کہ بتاتے کیوں نہیں ہو۔ تب انہوں نے کہا کہ حضرت! آپ کا نام عبد الغنی ہے حضرت نے دستخط کیے اور یہ ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ گئے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان وکرم ہے کہ اختر کو سترہ سال تک ایسے شیخ کی صحبت وخدمت عطا فرمائی جس کو بارہ مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور ایک مرتبہ ایسی زیارت نصیب ہوئی کہ مجھ سے فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں کے لال لال ڈورے بھی خواب میں دیکھے اور خواب ہی میں پوچھا کہ اے اللہ کے رسول!صلی اللہ علیہ وسلم کیا عبد الغنی نے آپ کو خوب دیکھ لیا۔ارشاد ہوا کہ ہاں عبد الغنی! تم نے اپنے اللہ کے رسول کو آج خوب دیکھ لیا۔ حضرت کو دیکھنے ہی سے لگتا تھا کہ یہ شخص اپنے وقت کا شمس الدین تبریزی ہے ؎ یاد ایامے کہ در مے خانہ منزل داشتم جام مے در دست وجاناں در مقابل داشتم وہ دن یاد آتے ہیں کہ شیخ کے اس مے خانہ محبت میں اختر بھی مقیم تھا ، اللہ کی محبت کا پیالہ ہاتھ میں اور میرا شیخ میرے سامنے ہوتا تھا۔گناہ سے نفس کو مزہ اور روح کو تکلیف ہوتی ہے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی کہے کہ بدنظری کرنے میں ،حسینوں کو دیکھنے میں ہمیں تو مزہ آتا ہے یہ ظالم جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے نفس دشمن کو مزہ آتا ہے روح کو اس وقت بھی تکلیف ہوتی ہے۔ نفس کو مزہ آتا ہے روح معذب ہوتی ہے ، دل