مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ایک ایسی مثال سے سمجھاتا ہوں کہ اہلِ علم بہت جلد سمجھ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ کیسے سمجھاتے ہو؟ میں نے کہا کہ اگر کوئی کسی کو دعوت دے اور وہ کہہ دے کہ میں آپ کی دعوت قبول کروں گا بشرطیکہ آپ شامی کباب کھلائیں گے اس کانام دعوت بشرط شیٔ ہے، اور اگر یہ کہہ دے کہ سب کچھ کھلانا بڑا گوشت نہ کھلانا تو بڑا گوشت نہ کھلانے کی جو شرط لگادی اس کا نام ہے دعوت بشرط لاشیٔ، اور اگر یہ کہہ دے کہ جو چاہو کھلاؤ جو چاہو نہ کھلاؤ ہماری کوئی شرط نہیں تو اس کانام ہے دعوت لابشرط شیٔ ۔ یہ سن کر دونوں بزرگ ہنسے اور فرمایا کہ تم نے تو اس مثال سے وہ سبق دیا جو خواص وعوام سب کو محبوب ہے۔طریقِ وصول الی اللہ کی تمثیل ہوائی جہاز سے فرمایا کہ اللہ کا راستہ جلد طے کرنے کے لیے اور اللہ والا بننے کے لیے چند چیزیں ضروری ہیں جس طرح ہوائی جہاز اُڑانے کے لیے چند چیزیں ضروی ہوتی ہیں:۱) رن وے ہو۔اسی طرح اللہ تک پہنچنے کےلیے شریعت وسنت کا راستہ ہو۔یہ اس کا رن وے ہے۔ ۲)جہاز کا کوئی پائلٹ ہو، یہ پیر ہے ، کسی سچے مرشد سے تعلق قائم کیجیے۔ ۳) پائلٹ مخلص ہو، پیٹو اور چکر باز نہ ہو ورنہ بجائے جدہ لانے کے ماسکو لے جائے گا۔ جعلی پیر جنّت کے بجائے دوزخ پہنچادے گا۔۴) جہاز کے ٹیک آف کرنے کے لیے پیٹرول بہت زیادہ چاہیے کیوں کہ جہاز مٹی کے اجزاء سے ہے، لوہا پیتل وغیرہ یہ سب زمین کی چیزیں ہیں اور ہر چیز اپنے مرکز اور مستقر سے وابستہ رہنا چاہتی ہے لہٰذا جہاز کو اس کی فطرت کے خلاف فضا میں اُڑانے کے لیے بہت زیادہ پیٹرول کی ضرورت ہے۔ جسم مٹی کا ہے، اپنی فطرت سے یہ مٹی کی چیزوں پر فدا ہونا چاہتا ہے اس کو اللہ کی طرف اُڑانے کے لیے محبت کا بہت زیادہ پیٹرول چاہیے۔ اتنی زیادہ اسٹیم ہو کہ ہم اُڑجائیں ؎ جسم کو اپنا سا کرکے لے چلی افلاک پر اللہ اللہ یہ کمالِ روحِ جولاں دیکھیے محبت کی یہ اسٹیم اہل اللہ کی مصاحبت ، ذکر اللہ پر مداومت ، نفس کی مخالفت یعنی گناہ اور اسبابِ گناہ سے مُباعدت سے نصیب ہوتی ہے۔ اس کے بعد پانچویں شرط یہ ہے کہ جہاز