مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
(۹؍رمضان المبارک ۱۴۱۷ ھ مطابق ۱۸؍جنوری ۱۹۹۷ ء بروزِ ہفتہ ۱۱ بجے صبح مدینہ منورہ)خلوت مع اللہ کی اہمیت ارشاد فرمایا کہ تنہائی کی عبادت بھی ضروری ہے ۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے خلوت محبوب کی گئی اور غار ِحرا میں آفتابِ نبوت طلوع ہوا جس پر میرا شعر ہے کہ ؎ خلوتِ غارِ حرا سے ہے طلوعِ خورشید کیا سمجھتےہو تم اے دوستو ویرانوں کو غارِ حرا میں خلوت اور سناٹا تھا لیکن نبوت کا آفتاب وہیں طلوع ہوا، مگر آفتابِ نبوت ملنے کے بعد پھر کارِ نبوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصروف ہوگئے پھر آپ کا غار حرا میں جانا تو ثابت نہیں ہے لیکن راتوں میں اللہ کے ساتھ خلوت میں رہے۔ پس جن لوگوں کوخلوتوں کے بعد اللہ تعالیٰ دینی خدمت کا منصب عطا فرمادے ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ کچھ وقت خلوتوں میں وہ اللہ کو یاد کریں کیوں کہ خلوت مع الخالق جلوت مع الخلق کے فیضان کا ذریعہ بنتی ہے۔ جس کی خلوت میں تلقی انوار نہ ہوگی وہ جلوت میں فیضانِ انوار نہیں کرسکتا۔ خلوت میں اللہ سے لے اور جلوت میں دے۔ حضرت شاہ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خلوت میں اللہ سے اتنا لو کہ تمہارے دل کا مٹکا انوار سے بھر کر چھلکنے لگے پھرمخلوق کو چھلکتا ہوا مال دو، اپنا مٹکا خالی نہ کرو۔ یہ بات حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے سنائی۔ بعض لوگ رات دن مخلوق کے ساتھ تبلیغ میں مصروف رہتے ہیں لیکن اللہ کو خلوت میں یاد نہیں کرتے، ان کی تبلیغ میں برکت نہیں ہوتی۔ لہٰذا ہر شیخ کے لیے خلوت بھی بہت ضروری ہے اور حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر ماں اچھی غذا نہیں کھائے گی تو اس کے بچے کمزور رہیں گے۔ جو شیخ تنہائی میں اپنے اللہ کو خوب یاد نہیں کرتا اس کے مریدین کی نسبت کمزور رہے گی۔ جتنا زیادہ شیخ متقی ہوگا اتنا ہی فیضان اس کے مریدوں پر ہوگا۔