مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اور اللہ کے قانون کا احترام کرے گا تو اس کے قلب پر تجلیاتِ پیہم کا نزول ہوگا ؎ میر میرے دلِ شکستہ میں جام و مینا کی ہے فراوانیتقویٰ گناہ سے بچنے کے غم اٹھانے کا نام ہے ارشاد فرمایا کہ دل چاہے کہ حسینوں کوخوب دیکھوں اور ان سے خوب باتیں کروں لیکن لاکھ دل چاہے، دل کے چاہنے پر عمل نہ کرکے غم اٹھالے، زخمِ حسرت کھالے ، خونِ تمنا کرلے اسی کا نام تقویٰ ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ تقویٰ اس کانام ہے کہ دل میں خیال بھی نہ آئے گناہ کا۔ یہ تقویٰ کیسے ہوسکتا ہےکیوں کہ تقویٰ نام ہے کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی کا ۔ جب تمہارے اندر ھَوٰی ہی نہیں تو کس چیز کو روکو گے۔ دل میں لاکھ تقاضا ہو کہ اس حسین کو دیکھوں اس سے باتیں کروں وغیرہ لیکن خدا کےخوف سے دل کے تقاضوں پر عمل نہیں کرتا اس کا نام تقویٰ ہے۔ اگر حُسن کو دل ہی نہ چاہے گا تو اسے کیا خاک تقویٰ حاصل ہوگا۔ مجاہدہ ہی اس کا کیا ہوگا۔ حُسن کی طرف جب میلان اور تقاضا ہی نہیں ہے تو اس تقاضے کو روکنے کا یہ غم ہی کیا اُٹھائے گا،یہ تو خشک آدمی ہے۔ اس کے اندر عشق ومحبت ہی نہیں ہے۔ یہ اللہ کا راستہ کیا طے کرے گا۔ دل چاہے لاکھ تقاضا ہو پھر بھی ایک حُسن کو نہ دیکھے پھر مزہ ہے۔ یہ اللہ کے راستے کی لذت پالے گا۔ جس کو حُسن کی طرف دیکھنے کا خیال بھی نہ آئے وہ یا نابالغ ہے یا مخنث ہے لہٰذا حسن کی طرف شدید میلان ہو، شدید تقاضا ہو، شدید خواہش ہو، دل چاہے کہ ایک حسین کو بھی نہ چھوڑوں لیکن دل کے چاہنے پر عمل نہ کرکے غم اُٹھانا ، زخمِ حسرت کھانا ، خونِ تمنا پینا اس کا نام تقویٰ ہے۔ تقویٰ اس کا نام نہیں ہے کہ گناہ کو دل ہی نہ چاہے۔ اگر ایسا ہوتا تو فرشتوں کو متقی کہا جاتا لیکن فرشتے معصوم ہیں، ان کو متقی کہنا جائز نہیں کیوں کہ ان کے اندر گناہوں کے تقاضے نہیں ہیں۔ وہ تو نورانی مخلوق ہیں۔ اولیاء اللہ فرشتوں سے تقویٰ کی وجہ سے ہی بازی لے گئے کہ باوجود تقاضائے گناہ کے یہ گناہوں سے بچتے ہیں اور اگر کبھی خطا ہوجاتی ہے تو ندامت وگریہ وزاری واشکباری سے یہ اللہ