مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
غیبت کی حُرمت بندوں سے اللہ کی محبت کی دلیل ہے اسی طرح غیبت کا حرام فرمانا بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی محبت کی دلیل ہے۔ جس طرح باپ اپنے بیٹے کی کسی بری عادت یا کسی عیب کو پسند نہیں کرتا۔ خود اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے لیکن یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے دوسرے بھائی اس کے بیٹے کے عیب کو ادھر اُدھر گاتے پھریں ۔ اللہ تعالیٰ کو بھی یہ پسند نہیں کہ اس کے بندوں کے عیوب کا لوگ چرچا کرکے اس کے بندوں کو رُسوا کریں اس لیے غیبت کو حرام فرمادیا۔ اس قانون سے بھی اللہ کی اپنے بندوں کے ساتھ کس قدر محبت ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ علمِ عظیم میرے قلب کو عطا فرمایا۔ نہ میں نے کسی کتاب میں دیکھا، نہ کسی سے سُنا۔غیبت کی معافی کا قانون بھی مبنی علی الرحمۃ ہے اسی طرح جس کی غیبت کی ہے اگر اس کو اطلاع نہیں ہوئی تو اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں۔ جس مجلس میں غیبت کی ہے ان لوگوں سے کہہ دو کہ فلاں وقت میں نے جو فلاں کی برائی کی تھی اس معاملے میں مجھ سے سخت نالائقی ہوئی، میں توبہ کرتا ہوں، ان میں بہت سی خوبیاں ہیں، بہت اچھے آدمی ہیں، یہ میری نالائقی اور کمینہ پن ہے کہ ان کی اچھائیوں کو نظر انداز کردیا جس پرمیں سخت نادم ہوں۔ آؤ ہم سب مل کر ان کو کچھ ایصالِ ثواب کردیں اور تین دفعہ قل ھو اللہ شریف یا کلمۂ طیبہ وغیرہ پڑھ کر بخش دو۔ اب اس کے پاس جاکر معافی نہ مانگو کیوں کہ ابھی تو اس کو خبر نہیں۔ اب اگر اس سے کہو گے کہ میں نے فلاں وقت آپ کی غیبت کی تھی تو اب اس کو علم ہوگا اور تکلیف ہوگی اور قلب مکدّر ہوگا۔ لہٰذا جب تک اس کو خبر نہیں اس سے معافی مانگنا واجب نہیں ، جن لوگوں سے غیبت کی ہے ان کے سامنے مذکورہ طریقے سے تلافی کرنا کافی ہے۔ ہاں! جب اس کو اطلاع ہوگئی تب معافی مانگنا واجب ہوگا۔ یہ حکیم الاُمت نے ’’الطرائف والظرائف ‘‘میں لکھا ہے اور میں نے خود پڑھا ہے۔ اس مسئلے کا اکثر علماء کو بھی علم نہیں الّا ما شاء اللہ۔