مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ورنہ ضمیر فروشی اور نفس پرستی رہتی ہے ۔ جس کے دل میں خالقِ دل متجلّی نہیں اس کا دل دل نہیں ہے وہ دلدل میں پھنسا ہوا ہے ۔ میرا شعر ہے ؎ صحبتِ اہلِ دل جس نے پائی نہ ہو اس کا غم غم نہیں اس کا دل دل نہیںعشق ہے نام نامرادی کا سندھ بلوچ سوسائٹی کے پارک سے چہل قدمی کے بعد جب حضرتِ والا پارک سے باہر تشریف لائے تو سامنے مدرسے کی قدیم عمارت کا ملبہ تھا جس کو دار العلوم کی تعمیر کے لیے توڑنا پڑا ہے ۔ حضرتِ والا کے ساتھ بہت سے احباب تھے، ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہاں دو منزلہ مکان تھا، اس کی تخریب اور ویرانی کو برداشت کرنا پڑا کیوں کہ یہاں چار ہزار گز پر ان شاء اللہ تعالیٰ! ایک عظیم الشان دار العلوم بنانا ہے۔ معلوم ہوا کہ بڑی نعمت کے لیے چھوٹی نعمت سے دست بردار ہونے سے آدمی کو زیادہ غم نہیں ہوتا جیسے اس عمارت کے گرنے سے دل کو ہلکا سا غم ہورہا ہے لیکن اس کے گرنے کے بعد جو نئی اور اس سے کہیں زیادہ عظیم الشان تعمیر ہونے کا امکان ہے اس خیال سے خوشی ہے۔ اسی طرح جو شخص اللہ کے لیے اپنی خواہشات کے محل ویران کرتا ہے تو خواہشات کے ویران ہونے کا ہلکا سا غم ہوتا ہے لیکن اس تخریب پر نسبت مع اللہ کی جو عظیم الشان تعمیر ملے گی اس سے دل مست ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر اپنی بری خواہشات کو تم ویران کردو تو اللہ حلاوت ایمانی کے میٹیریل سے تمہارے قلب کی عظیم الشان تعمیر فرمائے گا، تمہیں اپنے قرب کی لذت اور اپنی دوستی کا تاج عطا فرمائے گا۔ میرے قرب کی اس بڑی نعمت کے لیے تم اپنی حقیر اور گندی خواہشوں کو ویران کردو۔ پھر تمہاری ویرانی کے بعد جب ہم تعمیر کریں گے تو کیا شان ہوگی۔ پھر بزبانِ حال کہو گے ؎ ترے ہاتھ سے زیرِ تعمیر ہوں میں مبارک مجھے میری ویرانیاں ہیں