مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوگا۔اور جو شیخ نظر کی حفاظت کرتا ہے، تقویٰ سے رہتا ہے، ہر گناہ سے بچتا ہے اس کے قلب کا ایئرکنڈیشن اتنا قوی ہوگا اوراس کے پاس بیٹھنے سے اطمینانِ کامل نصیب ہوگا چاہے وہ کوئی تقریر نہ کرے جس طرح ایئر کنڈیشن تقریر نہیں کرتا لیکن سب کو ٹھنڈک نصیب ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا شیخ کی خاموشی کو غیر مفید نہ سمجھنا چاہیے کیوں کہ جب ذکر اللہ میں ٹھنڈک اور اطمینانِ قلب کی خاصیت ہے اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ تو جو ذاکر ہے اس کے قلب میں یہ خاصیت نہ ہوگی؟خصوصاً وہ شیخ کہ گناہ کی حرام لذتوں سے بچنے سے جس کے قلب میں صرف اللہ ہو، جس کے قلب میں صرف اللہ کے قرب کا عالم ہو اس کے قلب کے عالم کا کیا عالم ہوگا اس کو کوئی سمجھ بھی نہیں سکتا اور اس کا نفع متعدی اتنا قوی ہوگا کہ ایک عالم اس سے سیراب ہوگا۔گناہوں کے مانعِ ترقی وقرب ہونے کی مثال ارشاد فرمایا کہ بہت سے سالکین کولہو کے بیل کی طرح ہیں۔ کولہو کا بیل جہاں سے چلتا ہے وہیں پھر آکر رک جاتا ہے۔ چاہے ساری عمر چلتا رہے لیکن رہے گا وہیں کا وہیں۔ اسی طرح بعضے صوفیوں کو شیطان نے بےوقوف بنا رکھا ہے کہ اللہ اللہ بھی کرتے رہو اور گناہ بھی نہ چھوڑو ، ہر حسین لڑکی اور لڑکے کو دیکھتے رہو، یہ ایسا سالک ہے جو چل تو رہا ہے لیکن رہے گا وہیں کا وہیں، اللہ تک نہیں پہنچے گا، اس لیے ہمت کرکے گناہ چھوڑ دو۔مرنے کے بعد تو گناہ چھوٹ جائیں گے، کوئی مردہ بدنظری کرسکتاہے ؟ لیکن اس وقت کوئی اجر نہیں کیوں کہ اب تو وہ مجبور ہے، گناہ کر ہی نہیں سکتا لہٰذا مرنے کے بعد گناہ چھوٹنے پر کوئی ثواب نہیں۔ جیتے جی گناہ چھوڑ دو تو اللہ کے ولی ہوجاؤ ۔ ایک آدمی مرگیا اب اس پر بمباری ہورہی ہے ، جسم کے پرخچے اُڑگئے، تو کیا اس کو شہادت ملے گی؟ زندگی میں اگر اللہ کی راہ میں قتل ہوجاؤ اور خون بہہ جائے تب شہادت ملتی ہے۔ مُردوں کی شہادت قبول نہیں لہٰذا مرنے کا انتظار نہ کیجیے، جیتے جی اللہ پر فدا ہوجائیے گناہوں کو چھوڑ دیجیے پھر دیکھیے کہ قلب کو اللہ کے قرب کی کیا لذت حاصل ہوتی ہے۔ دنیا ہی میں جنّت کا مزہ آنے لگے گا۔