مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اہلِ محبت کے محفوظ عن الارتداد ہونے کی دلیل درس کے دوران ارشاد فرمایا کہ جتنے مرتد ہیں یہ بے وفا ہیں، محبت والے نہیں ہیں، وفاداری سے عاری ہیں، خشک ہیں۔اس حقیقت کو حضرت خواجہ صاحب نے اپنے ایک شعر میں پیش کیا ہے ؎ میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے سرِ زاہد نہیں یہ سر سرِ سودائی ہے اگر قیامت تک ہمیں اللہ زندگی دے دے تو ہم اپنی پیشانی کو قیامت تک اللہ کی چوکھٹ پر رگڑتے رہیں گے ، قیامت تک ہماری پیشانی اللہ کے در پر رہے گی۔ یہ زاہدِ خشک کا سر نہیں ہے کہ اس در کو چھوڑ کر بھاگ جائے یہ اللہ کے عاشقوں کا سر ہے۔ اگر اہلِ محبت بھی بے وفا ہوتے تو مرتدین کے مقابلے میں یہ آیت یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ نازل نہ ہوتی ۔یہ آیت نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ مرتدین جو بے وفاؤں کی کلی مشکک کے فردِ کامل ہیں یعنی جو بے وفائی کے انتہائی مقام پر پہنچ گئے ان کے مقابل میں وفاداری کی کلی مشکک کے فردِ کامل یعنی وفاداری کے انتہائی مقام پر پہنچنے والی قوم کو ہم پیدا کررہے ہیں جن کی شان یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمائیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے، اسلام لانے کے بعد جو مرتد ہوگئے وہ انتہائی بے وفا، غدار اور شقی القلب تھے۔ لہٰذا انتہائی درجے کی بے وفا قوم کے مقابلہ میں انتہائی درجے کی وفادار قوم پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمہ فضلاً واحساناً لازم تھا ورنہ مقابلہ صحیح نہ ہوتا۔دومن طاقت والے پہلوان کے مقابلے میں ڈیڑھ من طاقت والا پہلوان نہیں لایا جاتا بلکہ ڈھائی من کا لایا جاتا ہے ۔ لہٰذا انتہائی بے وفا قوم کے مقابلےکے لیے انتہائی وفادار قوم اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اہلِ محبت کبھی مُرتد نہیں ہوسکتے۔ اگر اہلِ محبت بھی بے وفا ہوتے تو لازم آتا کہ نعوذ باللہ! مرتد کا مقابلہ اللہ تعالیٰ نے مُرتد سے کیا ہے۔ یہ مقابلہ پھر مقابلہ کہاں رہتا۔ مقابلہ توضد سے ہوتا ہے لہٰذا اہلِ ارتداد کا مقابلہ اس آیت میں اہل ِوفا سے ہوا ہے جس سے معلوم ہوا