مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
کو پوری کائنات نے تسلیم کرلیا کہ یہ پروانے ہیں۔اسی طرح جو لوگ مرنے والوں پر مرتے ہیں ان کو اہلِ دل نہیں کہا جاتا کیوں کہ ان کے دل مٹی پر مٹی ہو کر مٹی ہوچکے ہیں، اور جن کے دل اللہ پر فدا ہوگئے ان کو کہا جاتا ہے کہ یہ اہلِ دل ہیں۔ میرا فارسی کا شعر ہے ؎ اہلِ دل آنکس کہ حق را دل دہد دل دہد او را کہ دل را می دہد اہلِ دل وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو دل دیتے ہیں جس نے کہ دل بنایا ہے۔اہل اللہ سے عدمِ محبت اللہ سے عدم ِمحبت کی دلیل ارشادفرمایا کہ جس کو اللہ والوں سے مل کر خوشی نہ ہو یہ دلیل ہے کہ اس کے دل میں اللہ کی محبت نہیں ہے ۔ ایک شخص کہتا ہے مجھے کباب سے بہت محبت ہے اور گلی سے آواز آتی ہے کباب والا! لیکن اس کے قلب پر کوئی کیفیت نہیں آتی اور وہ یہ نہیں کہتا کہ ’’ازکجا می آید ایں آوازِ دوست ‘‘ کہ یہ میرے دوست کی آواز کہاں سے آرہی ہے تو معلوم ہوا کہ یہ شخص عاشقِ کباب نہیں۔محبتِ حق کی ایک علامت میرے شیخ نے فرمایا تھا کہ اگر دوسرا بھی اللہ کا نام لے لے اور کہہ دے اللہ ! تو اگر وہ اللہ والا ہے تو اللہ کا نام سن کر اس کے دل پر کیفیت طاری ہوجائے گی کہ آہ! کون میرے محبوب کا نام لے رہا ہے۔اور فرمایا کہ جب میں حج کرنے گیا تو مکہ شریف میں ایک شخص ہندوستان سے آیا تھا جس کے اکلوتے بیٹے کا نام حامد تھا کہ ایک عرب نے اپنے بیٹے کو آواز دی یا حامد ! پس وہ ہندوستانی کانپنے لگا، اس کو اپنا بیٹا یاد آگیا ۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا عاشق ہو اور اللہ کا نام سن کر مزہ نہ آئے۔نسبت مع اللہ کی مثال مشک سے ارشاد فرمایا کہ جس ہرن کی ناف میں مشک پیدا ہوجاتا ہے تو اس کے بعد وہ سوتا نہیں ، کھڑے کھڑے اُونگھ لیتا ہے اس ڈر سے کہ کہیں کوئی شکاری میرا