مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
روح بھی مثلِ بانسری کے اللہ کی یاد میں رونے لگے گی۔ اور اہل اللہ کی صحبت کا کیا اثر ہوگا اس کو دوسرے مصرع میں بیان کرتے ہیں کہ ؎ و از جدائی ہا شکایت می کند جس طرح بانسری اپنے مرکز کی جدائی کا غم بیان کرتی ہے خود بھی روتی ہے اور دوسروں کو بھی رلاتی ہے اسی طرح تمہاری روح بھی اپنے اللہ کی جدائی کا غم بیان کرے گی خود بھی روئے گی دوسروں کو بھی رلائے گی اور اللہ کا دیوانہ بنائے گی۔ بانسری کی مثال سے مولانا نے یہ سبق بھی دے دیا کہ تم اللہ کی یاد میں رونہیں سکتے جب تک اللہ والوں کی صحبت میں نہ رہو گے۔راہ ِسلوک کا سب سے بڑا حجاب اور اس کا علاج اور دوسرا شعر کیا تھا جس میں مولانا نے راہ ِسلوک کے سب سے بڑے حجاب یعنی شہوتِ نفس کا علاج بتایا ہے ؎ نار ِشہوت چہ کشد نورِخدا علمائے کرام! غور سے سنیے مثنوی کا وزن کیا ہے ؟ فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔ فاعلاتن فاعلاتن میں مولانا نے ایک سوال قائم کیا نارِ شہوت چہ کشد؟ ابھی مصرع پورا نہیں ہوا۔ فاعلن باقی ہے۔ اسی فاعلن میں جواب دے دیا نورِ خدا۔مولانا کا کمال ہے کہ اس چھوٹی سی بحر میں ایک ہی مصرع میں سوال بھی قائم کیا اور اسی میں جواب بھی دے دیا ۔ نار ِشہوت چہ کشد سوال ہے اور نورِ خدا جواب ہے کہ شہوت کی آگ یعنی گناہ کے گندے گندے تقاضوں کی آگ کیسے بجھے گی؟ گناہ کرنے سے یہ شہوت کی آگ نہیں بجھے گی، گناہ کرنے سے گناہ کے تقاضے کم نہیں ہوں گے اور بڑھ جائیں گے۔ پاخانے کو پیشاب سے دھونے سے ناپاکی اور بڑھ جائے گی۔ تم سمجھتے ہو کہ گناہ کرنے سے گناہ کے تقاضوں کو سکون مل جائے گا؟ ہر گز نہیں ! اور آگ لگ جائے گی۔ اور دل پریشان ہوجائے گا۔ دیکھو جہنم کا پیٹ دوزخیوں سے نہیں بھرا۔ جب دوزخ سے اللہ تعالیٰ پوچھیں گے