مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
عبادت والا ہوگا اور کوئی عبادت سے خالی ہوگا لیکن متقی یعنی گناہ نہ کرنے والا زماناً ومکاناً کماً وکیفاً چوبیس گھنٹے عبادت میں ہے، چوبیس گھنٹے ذاکر ہے کیوں کہ اللہ کو ناراض نہیں کررہا ہے اس لیے اَعْبَدَ النَّاسِ ہے اگر چہ کچھ نہیں کررہا ہے ، نہ نفل پڑھ رہا ہے نہ تلاوت کررہا ہے نہ ذکر کررہا ہے، خاموش بیٹھا ہے لیکن عبادت میں ہے کیوں کہ کوئی گناہ نہیں کررہا ہے۔سو رہا ہے تو بھی عبادت میں ہے، بیوی بچوں سے بات کررہا ہے تو بھی عبادت میں ہے کیوں کہ کسی گناہ میں مبتلا نہیں ہے اس لیے اس کا ہر زمان اور ہر مکان نورِ تقویٰ سے مشرف ہے، لہٰذا متقی کو ذکرِ دوام اور عبادتِ دائمہ حاصل ہے۔ بتائیے اللہ کو ناراض نہ کرنا کیا عبادت نہیں ہے ؟ یہی وہ عبادت ہے کہ بہ نصِ قطعی جس سے اللہ کی ولایت اور دوستی نصیب ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےاِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّاالۡمُتَّقُوۡنَصرف متقی بندے اللہ کے اولیاء ہیں۔ تقویٰ غلامی کے سر پر ولایت کا تاج رکھتا ہے۔ لیکن متقی کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ کبھی اس سے خطا ہی نہ ہوگی ، احیاناً کبھی صدورِ خطا بھی ہوسکتا ہے لیکن وہ خطا پر قائم نہیں رہ سکتا اور گریہ وزاری اشکبار آہ وزاری سے پھر اللہ کی یاری حاصل کرلیتا ہے۔ یہ صاحبِ خطا بہ برکتِ استغفار وتوبہ صاحبِ عطا ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص بھی متقین کے زمرے میں شمار ہوگا۔ حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ متقی رہنا اتنا ہی آسان ہے جتنا باوضو رہنا۔وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ وضو کرکے آدمی باوضو ہوجاتا ہے اسی طرح اگر کبھی تقویٰ ٹوٹ جائے تو پھر توبہ و استغفار کرلو آپ متقی کے متقی ہیں۔ خطا پر ندامت وآہ آپ کو دائرۂ تقویٰ سے خارج نہیں ہونے دے گی ؎ ہے عبادت کا سہارا عابدوں کے واسطے اور تکیہ زہد کا ہے زاہدوں کے واسطے اور عصائے آہ مجھ بے دست وپاکے واسطےتقویٰ کی بے مثل لذت ارشاد فرمایا کہ اللہ نے اتنا مزہ تقویٰ میں رکھا ہے جو جنّت میں بھی نہیں ہے کیوں کہ وہاں نفسِ امارہ نہیں ہے لہٰذا نفسِ امارہ کے تقاضوں سے بچنے میں، گناہ