مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
غیبت زِنا سے اشدّ کیوں ہے؟ غیبت زِنا سے زیادہ اشد ّہے۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ علیہ وسلم) غیبت زِنا سے زیادہ سخت کیوں ہے؟ آپ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی زِنا کرلے پھر اﷲ سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہے جس سے زِنا کیا ہے اس سے جاکر معافی مانگنا ضروری نہیں بلکہ جائز ہی نہیں کیوں کہ اگر جاکر اس سے کہے کہ ذرا میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں تو اس کو اور ندامت ہوگی اور اس کی رسوائی اور بدنامی کا اندیشہ ہے۔ زِنا حق العباد نہیں ہے۔ آہ ! اﷲ کا احسان ہے بندوں پر کہ ہماری آبرو کی کیا حفاظت کی ہے اﷲ نے اپنے غلاموں کی عزت رکھ لی کہ اس کو حق العباد نہیں رکھا بلکہ اس گناہ کو اپنے حق میں شامل فرمایا کہ بس کہہ دو کہ یا اﷲ! جو مجھ سے یہ گناہِ کبیرہ ہوگیا یا آنکھوں سے نامحرم عورتوں کو دیکھا ان سب گناہوں سے معافی چاہتا ہوں تو معاف ہوجائے گا۔ بندوں یا بندیوں سے جاکر اس معاملہ میں یہ کہنا نہیں پڑے گا کہ مجھے معاف کردو۔ لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیبت ایسی چیز ہے کہ جس کی غیبت کی گئی اس سے جاکر معافی مانگنی پڑے گی بشرطیکہ اس کو خبر لگ جائے مثلاً کوئی گجرات میں ہے یا ڈابھیل میں ہے اس کی یہاں کسی نے غیبت کی تو اگر اسے خبر نہیں ہے تو اس سے جاکر معافی مانگنا لازم نہیں ہے۔ یہ حکیم الامت مجددالملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کی تحقیق ہے کہ جس کی آپ نے غیبت اور بُرائی کی ہے اس کو اگر خبر نہیں ہے تو اس سے جاکر معافی مانگنا لازم نہیں۔توپھر کیا کرے؟اس کے لیے یہیں سے مغفرت مانگو کچھ پڑھ کر بخش دو ، مشکوٰۃ شریف میں کفارۂ غیبت میں یہ روایت ہے کہ یوں کہے اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلَہٗ؎ کہ اﷲ مجھ کو بھی معاف کرے اور اس کو بھی معاف کردے یعنی اس کی مغفرت کی بھی دعا کرے کہ جس کی ہم نے برائی کی ہے یا سنی ہے اے اﷲ! مجھے معاف کردیجیے۔ بُرائی کرنا اور سننا دونوں حرام ہیں۔ جب کسی کی غیبت ہورہی ہو اس وقت اس کا دفاع نہ کرنا اور گونگے کی طرح خاموش بیٹھا رہنا ------------------------------