مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
مجھے حلاوتِ ایمانی عطا ہو، پس اس کے قلب کو اللہ تعالیٰ ایمان کی مٹھاس کی بے مثل لذت عطا کردیتے ہیں کہ میرا بندہ خوگر ضرب کاری ہوگیا تو اسے لطفِ یاری عطا فرماتے ہیں، اس کا قلب حلاوتِ ایمانی کی ایسی لذت پاتا ہے جو بادشاہوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھی ، مجانینِ عالم کی عشق بازیاں اور لیلائے کائنات کے نمکیات کی فتنہ سازیاں اس لذت کے سامنے بے قدر اور ہیچ ہوجاتی ہیں ، چاند سورج کی روشنیاں بے نور اور لوڈ شیڈنگ معلوم ہوتی ہیں اور پاپڑ سموسے کباب اور بریانیاں اس حلاوتِ قرب کے سامنے بے مزہ اور بے قدر معلوم ہوتی ہیں۔ اوریہ حلاوتِ ایمانی ذوقیہ،حالیہ،وجدانیہ،حسّیہ اللہ کےفضل پرموقوف ہے ہمارے کسی مجاہدےکا ثمرہ نہیں ہوسکتی ، کیوں کہ ہمارے مجاہدات ناقص اور یہ حلاوتِ ایمانی عطائے ربانی ہے جو ہمارے اعمالِ ناقصہ کا بدلہ نہیں ہوسکتی۔ ۲۷؍ذوقعدہ ۱۴۱۸ ھ مطابق ۲۷؍مارچ ۱۹۹۹ء بروز جمعہ ۷ بجے صبح در حجرۂ حضرتِ والا دامت برکاتہم خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال، کراچیمعیتِ الہٰیہ کی لذتِ بے مثل کی وجہ ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں اللہ اپنی تجلیاتِ خاصہ کے ساتھ متجلی ہوتا ہے دونوں عالم کے مزوں سے بڑھ کر بے مثل مزہ وہ دل میں پاتا ہے۔ تمام عالم کے سلاطین کے تخت وتاج کا نشہ بھی اس دل میں آتا ہے کیوں کہ سلاطینِ عالم کے تخت وتاج اللہ ہی کی بھیک ہیں، جس دل میں اللہ تجلی فرماتا ہے سارے عالم کی لیلاؤں کے نمک اور حُسن کا نشہ بھی ساتھ لاتا ہے اور سارے عالم کے کباب بریانی اور جملہ نعمائے کائنات کا مزہ بھی ساتھ لاتا ہے اور سورج اور چاند کی روشنی ان تجلیاتِ خاصہ کے سامنے ماند پڑجاتی ہے ۔ جنّت کی حوروں کا مزہ یہیں سے شروع ہوجاتا ہے ۔ اللہ حوروں کا خالق ہے۔ تو جب اللہ دل میں تجلی فرماتا ہے تو اس کو حوروں سے زیادہ مزہ دنیا ہی میں ملنے لگتا ہے کیوں کہ حوریں حادث ہیں۔ حادث کے معنیٰ ہیں جو پہلے نہیں تھا پھر موجود ہوا۔ لہٰذا جنّت کی اور جنّت کی حوروں کی اور جنّت کی تمام نعمتوں کی شان ابداً تو ہے ازلاً