مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے گا تو فرمایا کہ ) حضرتِ والا نے میرے اسفار پر پابندی لگادی تھی وہ بحال فرمادی اور پابندی لگانا بھی شیخ کی شفقت ہے۔ حضرتِ والا نے دیکھا کہ میرے خلیفہ کو ساری دنیا میں بلایا جارہا ہے ایسا نہ ہو کہ اس کے دل میں عُجب وکبر پیدا ہوجائے ۔ شیخ کی شفقت یہ گوارا نہیں کرتی کہ میرا مرید ہلاک ہوجائے اسی لیے کبھی ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور کبھی تحریر وتقریر پر پابندی لگادیتا ہے ۔ لیکن یہ شعر سن کر حضرتِ والا کو یقین ہوگیا کہ جو شیخ کا عاشق ہوتا ہے اس کو اللہ ضایع نہیں کرتا۔ ضایع وہی لوگ ہوئے جن کے سر پر کوئی بڑا نہیں تھا۔ جس کار پر کسی کا پاؤں نہ ہو یعنی کار کا کوئی ڈرائیور نہ ہو وہ جہاں تک سیدھا راستہ ہوگا جائے گی لیکن جہاں موڑ آئے گا وہیں ٹکرا جائے گی۔ جن کی گردن پر کسی شیخ کا پاؤں نہیں تھا وہ کچھ دور تک تو صحیح چلے لیکن کہیں جاہ کے اور کہیں باہ کے موڑ پر تصادم کر بیٹھے اور پاش پاش ہوگئے، خودبھی تباہ ہوئے اور جو ان کے ساتھ تھے وہ بھی تباہ ہوئے۔ جاہ اور باہ کے موڑوں پر شیخ ہی مرید کو سنبھالتاہے۔ شب ۲۱؍شوال المکرم ۱۴۱۸ ھ مطابق ۱۸؍فروری ۱۹۹۹ء بروز بدھ سورتی مسجد رنگون بعد مغرب سات بجے ( اسی مسجد میں ۱۹۲۰ء میں حکیم الاُمت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور وعظ ’’ملتِ ابراہیم‘‘ ہوا تھا۔)آغوشِ رحمتِ الہٰیہ کی ایک دل سوز تمثیل وعظ کے آخر میں حضرتِ والا نے یوں دعا فرمائی کہ اے اللہ! اگر ہم اپنی نادانی سے، اپنی نالائقی سے ، اپنے کمینہ پن سے آپ کے نہ بننا چاہیں تو بھی آپ ہمیں دوڑا کر اپنی آغوشِ رحمت میں لے لیجیے جیسے ماں چھوٹے بچے سے کہتی ہے کہ آجا میری گود میں تو بچہ ہنستا ہوا بھاگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں ماں کی گرفت میں نہیں آسکتا اور ماں بھی اس کے پیچھے ہنستی ہوئی بھاگتی ہے اور دوڑا کر اس کو گود میں لے کر پیار کرلیتی ہے۔ اے اللہ ! ہم بھی مثل بچوں کے نادان ہیں۔ ہم گناہوں کے چکروں میں فانی لاشوں کے پیچھے آپ سے دور بھاگے جارہے ہیں۔ اے اللہ! اپنی رحمت کو دوڑا کر ہم کو گود میں لے لے اپنی رحمت کی گود میں لے لے، اپنی رحمت کی گود میں لے لے۔ ہم سب کو سو فیصد ولی اللہ بنادے ۔