مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
کلیہ سے اللہ تعالیٰ نے اختر کو یہ اُصول عطا فرمایا کہ جب گھر سے باہر نکلو، بازار میں جاؤ تو عدمِ قصدِ نظر کافی نہیں ہے۔ پھر تو نفس دکھا دے گا، بد نظری کرادے گا۔لہٰذا قصدِ عدمِ نظر کیجیے یعنی ارادہ کرکے نکلیے کہ نہیں دیکھنا ہے ۔ عدم ِقصدِ نظر میں ارادے کی نفی تو ہے لیکن اس نفی کو اثبات میں بھی لائیے اور قصدِ عدمِ نظر کیجیے، یعنی ارادہ کیجیے کہ ہمیں اللہ کی نافرمانی نہیں کرنی ہے۔حسن کا کتنا ہی زبردست منظر ہوگا مگر ہم اس کے ناظر نہیں ہوں گے۔ قصدِ عدمِ نظر کے بغیر اس زمانےمیں نظر کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ کراچی میں ایک شخص آیا ، میں نے پوچھا کہ کہاں رہتے ہو؟ کہا کہ منظور کالونی میں رہتا ہوں، میں نے مزاحاً کہا کہ دیکھو بھائی ناظر کالونی میں نہ رہنا چاہے کوئی تمہیں مفت کا پلاٹ دے دے، پھر اسی وقت میرا یہ شعر موزوں ہوا ؎ وہی اللہ کا منظورِ نظر ہے دنیا کے حسینوں کا جو ناظر نہیں ہوتاحفاظت ِنظر کا حکم غیرتِ جمالِ خداوندی کا تقاضا ہے ارشاد فرمایا کہ ہمارے ایک دوست شیروانی صاحب مرحوم تھے انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم سے اولاد نہیں ہوتی، مجھے اجازت دے دو کہ میں ایک شادی اور کرلوں تو بیوی نے کہا کہ ایک شرط ہے کہ دوسری بیوی مجھ سے زیادہ حسین نہ ہو۔ یہ کیا ہے؟ غیرتِ حُسن ہے ۔ ایک دنیوی فانی حسن کو یہ پسند نہیں کہ میرا عاشق میرے علاوہ کسی اور سے زیادہ دل لگائے۔ تو نظر کی حفاظت کے حکم میں غیرتِ جمال خداوندی متقاضی ہے کہ میرے ساتھ مشغول رہو کہاں اِدھر اُدھر دیکھتے ہو۔ میرے ہوتے ہوئے غیروں پر نظر کرتے ہو۔ جن اعمال کو ہم نے حرام کیا ان کو کرکے تم ہمارے بننا چاہتے ہو۔ ہماری نافرمانی وناقدری کرکے تم ہمارے نہیں ہوسکتے۔نورِ تقویٰ پیدا کرنے والے دو تار ارشادفرمایا کہ آج کل ایک اشکال یہ ہوتا ہے کہ حسن پر عشق کی