مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
کے مستقبل کا اثر اس کے حال میں بھی ہوتا ہے جیسے جامن کا چھوٹا سا پودا ہے اس کی پتی کو اگر آپ چکھیں گے تو جامن کا کچھ ذائقہ اس میں ہوگا۔ پس جو لاشیں فنا ہونے والی ہیں ان کی فنائیت کے آثار ان کی ابتدا وعالمِ شباب میں بھی ہوتے ہیں۔ اللہ والوں کو اس کا ادراک ہوجاتا ہے اس لیے کوئی صاحبِ نسبت دنیا کی فانی لذات کا گرویدہ نہیں ہوتا۔ میرا شعر ہے ؎ اہلِ دل کی صحبتوں سے جو حقیقت بیں ہوا لذتِ دنیائے فانی کا وہ گرویدہ نہیںسفر میں روزے کی قضا کے متعلق ایک علمِ عظیم ارشاد فرمایا کہ آج کل بعض لوگ کہتے ہیں کہ پہلے تو مشقت کا زمانہ تھا، لوگ اونٹوں پر سفر کرتے تھے اُس زمانے میں سفر میں روزہ قضا کرنا تو سمجھ آتا ہے لیکن اب تو سفر آسان ہوگیا، ہوائی جہاز پر بیٹھے اور پہنچ گئے۔ اب اس رخصت سے نفع اُٹھانا سمجھ میں نہیں آتا۔اس اشکال کا جواب اسی آیت میں ہے فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ؎ کہ اگر تم مریض ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے ایام میں روزہ رکھ لو۔ یہاں عَلٰی سَفَرٍ فرمایا اور عَلٰی غلبہ واستیلاء واستعلاء کے لیے آتا ہے یعنی تم اگر سفر پر کتنے ہی غالب ہو، سواری تمہاری اختیاری ہو، مشقت کا کہیں نام ونشان نہ ہو، ہر طرح سے راحت ہو کہ گویا سفر تمہارا خادم وغلام وتابع ہے لیکن سفر میں تم روزہ چھوڑ سکتے ہو۔ اسی لیے عَلٰی نازل فرمایا ورنہ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوْمُسَافِرِیْنَ بھی نازل ہوسکتا تھا لیکن عَلٰی سَفَرٍ فرمایا تاکہ قیامت تک ریل اور ہوائی جہاز وغیرہ کی کتنی ہی سہولتیں اور راحتیں میسر ہوجائیں اور سفر کتنا ہی مغلوب کالعدم اور آسان ہوجائے پھر بھی تم اس رخصت سے فائدہ اُٹھاسکتے ہو۔یہ علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے اس بلدِ امین میں عطا فرمایا۔ ------------------------------