مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
ہنسی مزاح کے متعلق علومِ نافعہ ارشاد فرمایا کہ حدیثِ پاک میں کثرتِ ضحک سے دل مردہ ہونے کی جو وعید وارد ہوئی ہے اس سے مراد وہ ہنسی ہے جو غفلت کے ساتھ ہو ۔یہ بات ملّا علی قاری نے مرقاۃ میں حدیثاِنَّ کَثْرَۃَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ؎ کی شرح میں لکھی ہے۔ جو لوگ شرح نہیں دیکھتے وہ مطلق ہنسی کو بُرا سمجھتے ہیں، اگر حدیثِ پاک کے یہ معنیٰ ہوتے جو یہ متقشف لوگ سمجھتے ہیں تو ہنسنا ثابت ہی نہ ہوتا حالاں کہ حدیثوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ؎ کہ آپ کی داڑھیں کھل گئیں اور صحابۂ کرام بھی ہنسا کرتے تھے کَانُوْایَضْحَکُوْنَ وَلٰکِنَّ الْاِیْمَانَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ کَانَ اَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ؎ صحابۂ کرام خوب ہنستے تھے لیکن ایمان ان کے دلوں میں پہاڑوں سے بھی زیادہ تھا۔ حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ مفتی اعظم پاکستان نے بتایا کہ ایک بار خواجہ صاحب نے ہم لوگوں کو خوب ہنسایا پھر ہم لوگوں سےدریافت فرمایا کہ بتاؤ اس وقت ہنسی کی حالت میں کس کس کا دل اللہ سے غافل تھا۔ حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہم لوگ خاموش رہے تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ الحمد للہ! میرا دل اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول تھا پھر یہ شعر پڑھا ؎ ہنسی بھی ہے گولبوں پہ ہر دم اور آنکھ بھی میری تر نہیں ہے مگر جو دل رو رہا ہے پیہم کسی کو اس کی خبر نہیں ہے اور ایک مثال اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی کہ کسی باپ کے بہت سے بچے ہوں جو باپ کے نہایت فرماں بردار ہوں اور باپ ان سے خوش ہو وہ جب آپس میں ہنستے ہیں تو باپ خوش ہوتا ہے کہ میرے بچے کیسے ہنس رہے ہیں اور نافرمان بچے جن سے باپ ------------------------------