مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
تقویٰ محافظِ نورِ سنت ہے ارشاد فرمایا کہ سنت کے اتباع سے نور پیدا ہوتا ہے اور تقویٰ اس نور کا محافظ ہے لہٰذا جو تقویٰ کا اہتمام نہیں کرتا انوارِ سنت کو ضایع کرتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ٹنکی پانی سے بھر لی لیکن ٹونٹیاں کھلی چھوڑ دیں تو سب پانی ضایع ہوجائے گا اسی طرح سنت کے اتباع سے قلب انوار سے بھر گیا لیکن اگر آنکھوں کی ٹونٹی کھلی چھو ڑ دی، بدنظری کرلی، زبان کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دی یعنی غیبت کرلی، جھوٹ بول دیا وغیرہ ، کانوں کی ٹونٹی کھلی چھوڑدی یعنی گانا سن لیا وغیرہ اس نے اتباعِ سنت کے انوار کو ضایع کردیا۔ اس لیے انوارِ سنت کی حفاظت کے لیے گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔اللہ کی محبت کا رس ارشاد فرمایا کہ اللہ کی محبت کا رس تقویٰ ہے ۔ اگر تقویٰ حاصل نہیں تو اس نے اللہ کی محبت کا مزہ نہیں پایا۔ اگر اللہ کی محبت کا کامل مزہ لینا ہے تو گناہ سے بچو اور گناہ سے بچنے کا غم اٹھاؤ۔ اس غم کے صدقے میں اللہ اپنی محبت کا رس ، اپنا دردِ محبت دیتا ہے اور زندگی کا مزہ آجاتا ہے۔ افسوس کہ بعض احباب کو ایک زمانہ گزر گیا ہے لیکن گناہ نہ چھوڑنے کی وجہ سے اللہ کی محبت کا وہ درد جو اولیاء اللہ کے سینوں میں ہوتا ہے وہ نہیں پاسکے۔ اگر انہوں نے ہمت سے کام نہیں لیا اور رو رو کر اللہ سے توفیق کی بھیک نہ مانگی تو خوف ہے کہ ایسے ہی دفن نہ ہوجائیں۔ جن صوفیا اور سالکین نے سو فیصد تقویٰ اختیار نہیں کیا، ننانوے گناہ چھوڑدیے لیکن ایک گناہ میں مبتلا رہے وہ اللہ کی محبت کے دردِ کامل کو نہ پاسکے۔ لہٰذا جو اللہ کی محبت کا پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہے تو اللہ کی نافرمانی سے پوری پوری احتیاط کرے۔ دیکھیے دنیا میں اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی شخص کی پوری پوری مہربانی وشفقت حاصل کرلیں تو اس کو پورا پورا راضی کرنا ضروری ہوگا یا نہیں؟ تو جو لوگ اللہ کا پورا پورا پیار اور رحمت چاہتے ہیں وہ اللہ کے غضب کے اعمال سے بالکلیہ دست بردار ہوجائیں اور ٹھان لیں کہ جان دے دیں گے لیکن اللہ کو ناراض نہیں کریں گے۔ اس ایمان پر اللہ کا فضل نہ ہوگا ؟ اللہ دیکھتا ہے کہ میرے بندے نے جان کی