مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
(۲۹؍رمضان المبارک ۱۴۱۸ ھ مطابق ۲۸؍جنوری ۱۹۹۹ء بعد نمازِ فجر خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال کراچی )گناہوں کی دھوپ اور نیکیوں کا سایہ ارشاد فرمایا کہ دھوپ اور سائے میں ایک ہی وقت میں بیٹھنے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے بہشتی زیور میں یہ حدیث ہے۔ اس سے ایک مضمون دل میں آیا کہ گناہ میں مبتلا ہونا دھوپ میں آنا ہے اور گناہ سے بچنا، تقویٰ سے رہنا سایۂرحمت میں رہنا ہے۔ تو دھوپ اور سائے میں اکٹھے مت رہو گناہ بالکل چھوڑ دو اور بالکل نیک بن جاؤ۔ نیکیوں کے ساتھ گناہوں کو جمع مت کرو کیوں کہ نیکیوں سے رحمت کا ٹرک آگیا اور گناہوں سے غضب کا ٹرک آگیا۔ دونوں ایک دوسرے کو راستہ نہیں دے رہے ہیں تو تمہارا کام کیسے بنے گا لہٰذا پورے نیک بن جاؤ تاکہ ہر وقت سایۂ رحمت میں رہو۔ تھوڑا سا گناہوں کی دھوپ میں رہنا اور تھوڑا سا نیکیوں کے سائے میں رہنا ضرر سے خالی نہیں۔ محبوب کو تھوڑا سا خوش کرنا اور تھوڑا سا ناراض کرنا یہ تو محبت کا حق نہیں ہے۔ محبت کا حق یہ ہے کہ محبوب کو کبھی ناراض نہ کیا جائے۔ اگر ہم اپنے اوپر غم اُٹھالیں لیکن اللہ تعالیٰ کو ناخوش نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی خوشی پائیں گے جس کی مثال عالم میں کہیں نہیں ملے گی۔ بادشاہوں کو اس خوشی کا ذائقہ نہیں ملا جو اپنے مالک کو خوش کرنے سے اللہ والوں کے دل کو اللہ نے عطا فرمایا۔ اور یہ بھی ان کا کرم ہے کہ اپنی خوشی پر بندوں کی خوشی کو مقدم فرماتے ہیں اِرۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً اے نفس! لوٹ آ اپنے رب کے پاس تو مجھ سے خوش میں تجھ سے خوش ۔ اور بندوں کی خوشی کو مقدم کرنے میں بھی رحمت کی ایک جھلک ہے جس کو میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں جیسے ابّا اپنے بچے کو لڈو دیتا ہے تو کہتا ہے:لے لڈّو خوش ہوجا ، خوشی منا اور میں بھی تجھ سے خوش ہوں۔تو ہماری خوشی کو مقدم کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی شفقت کی جھلک دکھائی ہے اور ہماری خوشی کو اس لیے بھی مقدم کیا کہ وہ ہماری طرف سے خوشیوں سے بے نیاز ہیں،اور اس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے دعا کا ایک مضمون عطا فرمایا جس پر میرے بعض