مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
کئی راز ہیں جن میں سے ایک راز اللہ نے میرے قلب کو عطا فرمایا کہ آپ کو جو یہ ظالم مجنون اور پاگل کہہ رہے ہیں تو آپ ہماری پاکی بیان کیجیے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اس عیب سے کہ پاگلوں کو نبوت عطا فرمادے، وہ ہر گز کسی پاگل اور جادو گر کو نبوت نہیں دے سکتا۔فَسَبِّحۡکے بعد بِحَمْدِ رَبِّکَ فرمایا کہ ہماری تسبیح کے ساتھ ہماری حمد بھی بیان کیجیے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑا احسان فرمایا کہ آپ کو پیغمبر بنایا،اس عطائے نبوت پر ہماری حمد بیان کیجیے۔وَ کُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ؎اور نماز شروع کردیجیےاور پوری نماز کو سجدہ سے تعبیر کیا اس کو بلاغت میں مجازِ مرسل کہتے ہیں۔ یہاں تَسْمِیَۃُ الْکُلِّ بِاسْمِ الْجُزْءِ ہے اور سجدہ سے کیوں تعبیر کیا ؟اس لیے کہ سب سے زیادہ قرب سجدہ میں عطا ہوتا ہے کیوں کہ بَیْنَ قَدَمَیِ الرَّحْمٰنِ بندے کا سر ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ اور یہاں مجازِ مرسل کیوں استعمال فرمایا؟ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دل غم زدہ تھا اور سجدہ میں قرب زیادہ عطا ہوتا ہے لہٰذا سجدہ کا حکم دے کر گویا یہ فرمایا کہ آپ میری چوکھٹ پر سر رکھ دیجیے جیسے باپ بیٹے سے کہتا ہے کہ بیٹا!جب تمہیں کوئی ستائے تو میری گود میں آجایا کرو۔صداقتِ نبوت وصداقتِ کلام اللہ کی ایک دلیل دورانِ گفتگو فرمایا کہ جس یتیم نے کبھی مدرسے کا منہ نہ دیکھا ہو اور کسی اُستاد سے نہ پڑھا ہو اس کی زبانِ مبارک سے ایسا فصیح وبلیغ کلام نکلنا جس کی فصاحت وبلاغت کے سامنے فصحائے عرب شرمندہ ہوگئے اور اپنا سامنہ لے کر بیٹھ گئے یہ دلیل ہے کہ قرآنِ پاک اللہ کا کلام ہے ۔ اگر یہ اللہ کا کلام نہ ہوتا تو سب سے پہلے عرب انکار کرتے لیکن دنیا میں عرب جتنا قرآن پڑھتے ہیں اتنا عجم نہیں پڑھتا۔حرم میں دیکھ لیجیے کہ جو عرب آتا ہے فوراً تلاوت شروع کردیتا ہے۔اگر اہلِ زبان اس کی عظمت کے قائل نہ ہوتے تو اس کو نہ پڑھتے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کی اور قرآنِ پاک کے کلام اللہ ہونے کی یہی دلیل ہے کہ اہلِ عرب ہم سے زیادہ اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ ------------------------------