مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
استقامت کا امتحان ارشاد فرمایا کہ اس زمانے میں کیسے معلوم ہو کہ فلاں شخص کو استقامت حاصل ہے۔ استقامت کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب سامنے کوئی خوش قامت ہو۔ خوش قامت سامنے ہو اور یہ پھر بھی نہ دیکھے تو سمجھ لو کہ اس کو استقامت حاصل ہے۔ استقامت میں بھی قامت ہے اور خوش قامت میں بھی قامت ہے۔ اور قامت کیسی ہے میرا شعر سنیے ؎ اس کی قامت ہے یا قیامت ہے یہ مصرع کتنا رومانٹک ہے جس کی وجہ سے اہلِ رومانٹک اور مسٹر بھی سمجھ جاتے ہیں کہ ملّاحُسن کی نزاکتوں سے ناواقف نہیں ہے۔ پہلے مصرع میں جس درجے کا مرض ہے دوسرے مصرع میں،میں نے اتنی ہی قوت اور اتنے ہی ملی گرام کا اینٹی بائیوٹک پیش کیا ہے، اب دوسرا مصرع سنیے ؎ اس کو دیکھے گا جس کی شامت ہے اس زمانے میں استقامت کا سب سے بڑا امتحان یہ ہی ہے کہ جو نظر کو حسینوں سے بچالے تو سمجھ لو کہ وہ اللہ کی مرضی پر مستقیم ہے۔ ورنہ جو خوش قامت کو دیکھتا ہے اس کو استقامت کہاں نصیب ہے اس کی تو شامت آئی ہوئی ہے۔عدم ِقصدِ نظر اور قصدِ عدمِ نظر ارشاد فرمایا کہ حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کی روشنی میں اختر ایک بات عرض کرتا ہے۔ کلیات حکیم الاُمت کے ہیں اور جزئیہ اختر پیش کررہا ہے۔ایک شخص نے کہا کہ میرا آپ کو اذیت دینے کا ارادہ نہیں تھا۔ تو حضرت حکیم الاُمت نے فرمایا کہ تمہارا ارادہ اذیت کا تو نہیں تھا لیکن تم نے یہ ارادہ کیوں نہیں کیا کہ میری ذات سے کسی کو اذیت نہ پہنچے ۔ عدمِ قصدِ ایذاء تو تھا لیکن تم نے قصد ِعدمِ ایذاء کیوں نہیں کیا۔ اگر یہ ارادہ کرتے کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے تو تکلیف نہ پہنچتی ۔ اس