مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اور پستان ایک ایک فٹ لٹکے ہوئے دیکھ کر اس عالمِ ناسوت سے نکل جاتا ہے، غیر اللہ سے فرار اختیار کرتا ہے اور اللہ کے ساتھ قرار حاصل کرتا ہے۔ اور اس میں سالک کو دو لطف ملتے ہیں:غیر اللہ سے فرار کا لطف الگ، اور اللہ پر قرار یعنی حلاوتِ ایمانی کا لطف الگ۔ کلمہ کی بنیاد میں پہلے لَا اِلٰہَ ہے۔اِلَّا اللہْ کا لطف موقوف ہے لَا اِلٰہَ پر۔ اِلَّا اللہْ کے لطف کے تو سب حریص ہیں لیکن لَا اِلٰہَ میں، غیر اللہ سے فرار میں، گناہوں سے بچنے کا غم اُٹھانے میں،غمِ تقویٰ میں ایسی عظیم لذت ہے جو دل ہی محسوس کرتا ہے۔ جس کا لَااِلٰہَ مکمل ہوگیا پھر اس کو اِلَّا اللہْ کا اصل مزہ ملتا ہے اور سارا عالم اِلَّا اللہْ سے بھرا ہوا نظر آتا ہے ۔ قلب کے آسمان سے لَا اِلٰہَ کے بادل ہٹادیجیے پھر سارے علم میں اِلَّااللہْ کا سورج چمکتا ہوا نظر آئے گا۔ اسی طرح اگر کسی کو لڑکوں کی طرف میلان ہوتا ہے تو فوراً نظر ہٹا کر تصور کرو کہ یہ اَمرد اسّی سال کا ہوگیا، اتنا گہرا مراقبہ کرو کہ نظر آنے لگے کہ اس کے چہرے پر جھّریاں پڑگئیں، دانت ٹوٹ گئے، منہ سے رال بہہ رہی ہے ، آنکھوں سے کیچڑ نکل رہا ہے اب سوچو کہ اس حالت میں اس کی طرف دیکھنے کو دل چاہے گا؟ اور میرا یہ شعر پڑھو ؎ میر کا معشوق جب بڈھا ہوا بھاگ نکلے میر بڈھے حُسن سےجو ہانسبرگ ایئرپورٹ پر ایک نصیحت حضرتِ والا کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر بہت بڑا مجمع تھا، دور دور کے شہروں سے بڑے بڑے علماء آئے تھے، مصافحہ اور معانقہ کے بعد حضرتِ والا نے ارشاد فرمایا کہ ان لیلاؤں کو نہ دیکھو اللہ پر فدا ہوجاؤ ۔جو اللہ پر فدا ہوا وہ نشۂ تخت وتاجِ سلاطین اور لیلائے کائنات کی نمکیات اور مجانینِ عالم کی عاشقانہ کیفیات اور مرغ وکباب وبریانی کی لذات سب پاگیا کیوں کہ اللہ کے نام میں دونوں جہاں کی لذات موجود ہیں اللہ تعالیٰ کا نام دنیا وآخرت دونوں کائنات کے مجموعہ لذات کا کیپسول ہے جو اللہ کو پاگیا دونوں عالم کا مزہ اس کے دل میں اتر گیا۔ لہٰذا ایئرپورٹوں پر اور سڑکوں پر آنکھیں دو چار