مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
جو یاد آتی ہے وہ زُلفِ پریشاں تو پیچ و تاب کھاتی ہے مری جاں جو پوچھے گا کوئی مجھ سے یہ آکر کہ کیا گزری ہے اے دیوانے تجھ پر نہ ہرگز حالِ دل اپنا کہوں گا ہنسوں گا اور ہنس کر چپ رہوں گا یہ اشعار حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ کے ہیں، جو حضرت حاجی صاحب نے اپنے شیخ میاں جی نور محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے انتقال پر کہے تھے۔حاصلِ کائنات مجلس کے اختتام کے قریب یہ ارشاد فرمایا کہ اگر ہم اﷲ کی محبت پاگئے اور ہمارے دل میں اﷲ پاک کا نورِ خاص عطا ہوگیا اور ہم صاحبِ نسبت ہوگئے، تو پھر ساری کائنات کے ہم حاصلِ کائنات ہوگئے، کیوں کہ کائنات ہمارے لیے پیدا ہوئی ہے اور ہم اﷲ کے لیے پیدا ہوئے ہیں تو جس نے اﷲ کو پالیا وہ حاصلِ کائنات اپنے دل میں پاگیا اس کے قلب میں زمین و آسمان بھی ہیں، سورج و چاند بھی ہیں۔ سورج چاند کا خالق جب دل میں ہے تو سورج کیا بیچتا ہے، جس کے دل میں خالقِ آفتاب ہو وہ بے شمار آفتاب اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ یہ مزہ ہے۔ آپ بتائیے اس مزہ کے سامنے بادشاہوں کے تخت و تاج، وزارتِ عظمیٰ اور سلطنت کا خیال آئے گا؟ دنیا کی لیلاؤں کا خیال آئے گا؟ ہر لیلیٰ لاش معلوم ہوگی۔ لاش کے معنیٰ ہیں لاشے۔ گلنے سڑنے والی لاشیں ہیں۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کسی سے دل کو مت بہلاؤ، یہ سب سہارے فانی ہیں، عارضی ہیں، جب ان کا جغرافیہ بدل جائے گا، نقوش بگڑ جائیں گے تو کہاں جاؤگے کس سے دل بہلاؤگے؟ اﷲ پر فدا ہوجاؤ سمجھ لو ساری دنیا کی لیلاؤں کا حسن مل گیا، جو اﷲ پر مرگیا ساری دنیا کی سلطنت اس کے ہاتھ میں ہے، ساری کائنات اور دولت سب کچھ اس کے پاس ہے چاہے چٹنی روٹی کھارہا ہے لیکن اگر دل میں اﷲ ہے تو بہار ہی بہار ہے۔ میرا