مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے کیوں کہ اللہ کی وجہ سے اکرام کررہا ہے۔ لہٰذا جن لوگوں نے اپنے شیخ کا اکرام کیا اللہ نے ان کو اکرام عطا فر مایا کیوں کہ اہل اللہ کا اکرام اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے اور اکرامِ الہٰیہ کا انعامِ الہٰیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اکرام بین الخلق دیتا ہے جَزَآءً وِّفَاقًا یعنی جزاء موافقِ عمل، اور جنہوں نے اپنے نفس کو نہیں مٹایا ، شیخ کا اکرام نہیں کیا دنیا میں بھی ان کو اکرام نصیب نہیں ہوا لیکن حکیم الاُمت تھانوی فرماتے ہیں کہ شیخ کا اکرام اکرام بین الخلق کے لیے نہ کرو، اللہ کے لیے کرو۔ اللہ والوں کو اللہ کے لیے چاہو، دنیا کی نیت کرکے اپنے عمل کو ضایع نہ کرو، دُنیا تو خود آئے گی۔ دنیا بغیر نیت ملتی ہے، اللہ نیت سے ملتا ہے۔ ہمارے دل میں جو کچھ ہے سب اللہ کے سامنے ہے۔ جو شخص اکرام فی الخلق کی نیت کرے گا تو بتائیے غیرتِ جمالِ خداوندی کا کیا تقاضا ہے کہ یہ ظالم مخلوق میں مکرم ہونے کے لیے ہمارے عاشقوں سے ملتا ہے، ہمارے لیے نہیں مل رہا ہے ۔ لہٰذا غیرتِ جمالِ خداوندی اس کو گوارا نہیں کرتی اور ایسا شخص محروم رہتا ہے۔اکتسابِ نور بقدر فنائے نفس ہوتا ہے ارشاد فرمایا کہ نُوْرُ الْقَمَرِ مُسْتَفَادٌ مّنْ نُّوْرِ الشَّمْسِ قمر کی کوئی ذاتی روشنی نہیں ہے وہ آفتاب کی شعاعوں سے روشن رہتا ہے جب آفتاب اور چاند کے درمیان زمین کی پوری حیلولت آجاتی ہے تو چاند بالکل بے نور ہوجاتا ہے اور جب حیلولت تھوڑی تھوڑی ہٹتی جاتی ہے تو چاند تھوڑا تھوڑا روشن ہوتا جاتا ہے اور جس دن زمین کی حیلولت بالکل ختم ہوجاتی ہے تو سورج کی روشنی سے چاند کا پورا دائرہ روشن ہوجاتاہے ۔ جن لوگوں نے اپنے نفس کی حیلولت کو ، بری خواہشات کو بالکلیہ مٹادیا ان کے قلب کا پورا دائرہ حق تعالیٰ کے قرب کی تجلیات سے بدرِ منیر ہوجاتا ہے ، قلب کا پورا دائرہ تجلیاتِ الہٰیہ سے روشن ہوتا ہے لہٰذا اس کی تقریر میں اور اس کی تحریر میں ان ا نوارِ الہٰیہ کے آثار محسوس ہوں گے لیکن اگر نفس کو پورا نہیں مٹایا اور نفس کی شرارت سے کبھی کبھی گناہ بھی کرتا رہتا ہے، کبھی کبھار اِدھر اُدھر نظر مار کر لذت لیتا ہے تو اس کے قلب کا دائرہ پورا روشن نہیں ہوگا۔ جس طرح چاند کی چودہ تاریخ سے پہلے بھی تو چاند ہوتا ہے