مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
حکمِ استغفار کی ایک عاشقانہ تمثیل (۱۸؍شوال المکرم ۱۴۱۸ ھ مطابق ۱۶؍فروری ۱۹۹۹ء دو شنبہ بہ مقام رنگون (برما) دوپہر ساڑھے بارہ بجے حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ مُجاز صحبت حضرت مفتی محمود صاحب سے ملاقات کے بعد واپس ہوتے ہوئے کار میں حضرتِ والا نے مندرجہ ذیل ملفوظات ارشاد فرمائے)۔ ارشاد فرمایا کہ نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ اپنی زندگی کی ہر سانس کو مجرمانہ سمجھتے ہوئے معترفانہ ، مستغفرانہ ، نادمانہ ،تائبانہ ، ناجیانہ اور فائزانہ بنالو ان شاء اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی نجات ہوجائے گی۔ ایک شخص مٹھائی کی دوکان پر ہو اور شوگر کی بیماری ہو اور مٹھائی کا شوقین بھی ہو تو کس قدر عظیم خطرے میں ہے کہ پرہیز میں کوتاہی کر بیٹھے ۔ اس زمانے میں چاروں طرف حُسن کی مٹھائیاں بکھری ہوئی ہیں، نیم عریاں لڑکیاں ہر طرف پھر رہی ہیں لہٰذا کوشش کرو، ہمت کرو، جان لڑا دو کہ ان کو ہر گز نہ دیکھیں گے لیکن جو کچھ چُوک ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر معافی مانگو۔ بھوکی چڑیا ہے اور چاروں طرف دانے بکھرے ہوئے ہیں تو مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ صد ہزاراں دام ودانہ است اے خدا ما چو مرغانِ حریص بے نوا ایک لاکھ دانے اور جال لگے ہوئے ہیں اور ہم حریص اور لالچی چڑیوں کی طرح ہیں جنہیں بھوک بھی لگی ہوئی ہے۔ نفس تو لذتِ گناہ کا شوقین ہوتا ہے اس لیے کوشش کرو، جان لڑادو، غم اٹھاؤ پھر بھی اگر خطا ہوجائے تو اللہ سےمعافی مانگو کہ اے اللہ !ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو معاف کرنا نہ ہوتا تو اِسْتَغْفِرُوْا کا حکم ہی نہ دیتے۔جب ابّا بچے سے کہے کہ معافی مانگ تو سمجھ لو ابّا معاف کرنا چاہتا ہے ۔ اِسْتَغْفِرُوْا کا حکم بتاتا ہے کہ ربّا ہم کو معافی دینا چاہتے ہیں۔ پھر ماں سکھاتی ہے کہ ہاتھ جوڑ کر ایسے معافی مانگو۔ اسی طرح اللہ والے سکھاتے ہیں کہ ربّا سے کس طرح معافی مانگو۔ لاکھ عریانی ہے لیکن بار بار نظر بچانے سے حلوۂ ایمانی کی بھی تو فراوانی ہے۔ جو بار بار اپنا دل توڑے گا