مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
مَنْ شِئْتَ فَاِنَّکَ مُفَارِقُہٗ جس سے چاہو محبت کرلو لیکن ایک دن اس سے جدا ہوجاؤ گے۔ یہ جدائی عارضی بھی ہوسکتی ہے اور دائمی بھی مثلاً محبوب یہاں سے ڈر بن چلا گیا، یابیوی میکے یعنی مائی کے یہاں چلی گئی تو یہ عارضی جدائی ہوئی اور اگر موت واقع ہوگئی تو دائمی جدائی ہوگئی اور کلامِ نبوت کی بلاغت دیکھیے کہ بابِ مفاعلہ استعمال فرمایا جس میں فعل کاصدور جانبین سے ہوتا ہے ، کیا معنیٰ کہ یا وہ محبوب تم سے جدا ہوسکتا ہے یا تم اس سے جدا ہوسکتے ہو عارضی طور سے یا دائماً ، اس طرح فراق ہوا یا نہیں ؟ لیکن اللہ تعالیٰ سے کبھی فراق نہیں ہوتا۔ وہ ہم سے جدا نہیں ہوتے، ہم اپنی نالائقی سے ان سے جدا ہوتے ہیں، گناہ کے بادلوں کے ظلمات میں ہم محجوب ہوجاتے ہیں۔لہٰذا محبت کا فطری مزاج یہ ہی ہے کہ محبوب سے ہر وقت ملاقات ہو ورنہ عاشق مرجائے گا،اور ہر وقت ساتھ رہنے والا سوائے اللہ کے کوئی نہیں ہے لہٰذا عقلاً بھی یہ دلیل ہے کہ اللہ ہی سے محبت کرو۔محبت بالحق اور محبت للحق میں کوئی فرق نہیں ارشاد فرمایا کہ جو محبت للحق ہوتی ہے وہ محبت بالحق ہوتی ہے یعنی جو محبت اللہ کے لیے ہوتی ہے وہ اللہ ہی کی محبت میں شامل ہے اس لیے شیخ کی محبت اللہ کی محبت سے الگ نہیں ہے۔ جو شخص شیخ کی محبت کو اور اللہ کی محبت کو الگ الگ سمجھتا ہے وہ مشرک فی التصوف ہے ؎ دو مگو و دو مخواں و دومداں خواجہ را در خواجہ خود محو داں شیخ کو اپنے اللہ کی محبت میں فانی سمجھو، الگ مت سمجھو۔ جب شکر دودھ میں محلول ہوگئی ، گھل گئی اورفنا ہوگئی یعنی فانی فی اللبن ہوگئی اب اس کو دودھ سے الگ مت سمجھو ، ہر گھونٹ میں اب اس شکر کو بھی پاؤ گے۔ بندہ جب اللہ میں فانی ہوگیا تو سمجھ لو کہ اس کو دیکھنا گو یا اللہ کو دیکھنا ہے۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس شیشی میں دس ہزار روپے تو لہ کا عطر عود ہے تو جو شخص اس شیشی کو دیکھ رہا ہے وہ گویا عطر کو دیکھ رہا ہے اور اس شیشی کا اکرام کرنا عطر کا اکرام ہے اس لیے شیخ کا اکرام