مواہب ربانیہ |
ہم نوٹ : |
|
مشاہدہ کررہا ہوں کہ علوم ومعارف القاء ہورہے ہیں لہٰذا یہ کلام جو میری زبان سے نکلے گا دراصل مولانا ہی کا کلام ہوگا۔مولانا رومی سے حضرتِ والا کا شدید قلبی تعلق ارشاد فرمایا کہ مولانا جلال الدین رومی بچپن ہی سے میرے اُستاد ہیں۔مثنوی سے میں نے تصوف اور سلوک سیکھا۔ اللہ کی طلب اور پیاس مثنوی سے مجھ کو حاصل ہوئی ۔ میں اس وقت بچہ تھا، بالغ بھی نہیں ہوا تھا ، بارہ سال کی عمر تھی، جنگل کی ایک مسجد میں جاکر نماز پڑھتا تھا اور آسمان کی طرف دیکھ کر مولانا کا یہ شعر پڑھتا تھا ؎ سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق اے خدا! اختر آپ کی جدائی کے غم میں اپنے سینے کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے ؎ تابگویم شرح از دردِ اشتیاق تاکہ آپ کی محبت کی بات کو میں دردِ دل سے پیش کروں۔ اگر یہ اللہ کا جذب نہیں تھا تو پھر کون مجھے جنگل میں لے جاتا تھا۔ اس وقت آسمان وزمین کو دیکھ کر دل کو وجد آجاتا تھا اور مولانا کے اشعار سے تسلّی ہوتی تھی۔وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ کے متعلق ایک جدید علمِ عظیم سفر کے دوران ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جملہ خبریہ سے یہ آیت نازل فرمائیوَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ ؎ کہ مجھ پر ایمان لانے والوں کے دل میں، میرے ماننے والوں کے دل میں میری محبت تمام محبتوں سے اشد ہے۔ اس آیت کی تفسیر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ نبوت سے بصورتِ جملہ انشائیہ یعنی بصورتِ دعا مانگ کر فرمائی جس میں اشد محبت کے حدود اور اشد محبت کا معیار آپ ------------------------------